Saturday, January 18, 2014

سمر قند و بخارا کی خونی سرگزشت


دیباچہ

سمر قند و بخارا کی زیرِ نظر سرگزشت ، دو شہروں کی سرگزشت نہیں ہے۔"سمر قند و بخارا" سے مُراد ترکستان کی وہ سرزمین ہے جو اسلامی تاریخ میں ماوراءالنہر کے نام سے مشہور ہے۔"سمرقند و بخارا"ملتِ اسلامیہ کی عظیم الشان تاریخ کا زریں باب ہے۔اِس خاک سے اُمت کی بڑی بڑی نامور شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے اسکی دینی ، علمی ، تہذیبی اور سیاسی تاریخ کو رنگ و آب دینے میں گراں قدر حصہ لیا۔"سمرقند و بخارا کی خُونیں سرگزشت"اسی سر زمین سے تعلق رکھتی ہے۔جب سوشلزم اِس علاقے پر مسلط ہوا ، تو اس پر کیا گزری؟زیرِ نظر کتاب اسی داستان کا ایک مختصر باب ہے۔مختصر باب اس لیے کہ یہ صرف ان واقعات پر مشتمل ہے جو ترکستانی مہاجر اعظم ہاشمی نے خود دیکھے ، سُنے یا جن سے وہ براہ راست دوچار ہوئے۔
اعظم ہاشمی اُن ہزاروں تُرک مہاجرین میں سے ایک ہیں جو تُرکی ، سعودی عرب اور مغربی یُورپ میں آباد ہیں۔ہاشمی صاحب افغانستان کی راہ سے برصغیر آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔جب پاکستان وجود میں آیا ، تو اس اسلامی ریاست میں چلے آئے ، وہ گزشتہ 36، 37 سال سے اس داستان کو سینے میں چھپائے بیٹھے تھے۔ان کے دوستوں نے بارہا کہا کہ وہ اپنی داستان قلمبند کردیں، لیکن قلب و رُوح کے زخم کھول کر دکھانے کی وہ اپنے اند ہمت نہ پاتے۔پاکستان میں سُرخ سامراج کے گماشتوں نے سوشلزم کا شور بلند کیا اور کچھ نام نہاد "مولانا" اور "مُفتی" ان کے رکابدار بن کر میدان میں آئے تو اعظم ہاشمی تڑب اُٹھے۔اُن کے زخم جیسے تازہ ہو گئے۔سمر قند و بخارا میں بھی ٹھیک وہی کھیل کھیلا گیا تھا جو آج پاکستان میں کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہاں سوشلزم کے گماشتے اس طرح معاشی مساوات اور غریبوں اور مزدوروں کی غمخواری کے نعرے لگا کر میدان میں آئے اور چند نام نہاد "مُلاؤں" اور مُفتیوں نے اُن کے رکابداروں کا کردار ادا کیا۔تُرکستان کےمسلمان اُن کے اس کردار سے دھوکا کھا گئے۔سوشلزم کو وہ محض ایک معاشی نظام کی حیثیت سے دیکھنے لگے ، لیکن جب یہ عفریت پوری طرح اُن پر مسلط ہو گیا ، تو وہ اُن کے دین ، تہذیب و روایات ، ثقافت و تمدن اور آزادی کو نگل گیا۔
اعظم ہاشمی نے جب دیکھا کہ پاکستان کو بھی سمر قند و بخارا بنانے کی سازش ہو رہی ہے تو انہوں نے پاکستان کے مسلمانوں کے سامنے سوشلزم کے حقیقی خدوخال کھول کر رکھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔چنانچہ انہوں نے اپنی طویل و دردناک داستان قلمبند کی۔راقم السطور نے اس کو ازسرِ نو مرتب کر کے اپنے الفاظ میں لکھا۔
اس داستان کے مخاطب یُوں تو وہ نام نہاد مولانا اور مفتی بھی ہیں جو سوشلزم کے گماشتوں کے ہاتھوں میں دانستہ یا نادانستہ کھیل رہے ہیں۔اگر اُن کے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہے ، تو خُدارا سوچیں کہ وہ کیسا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور کِن لوگوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔تاہم اس داستان کے اصل مخاطب پاکستان کے مسلمان عوام ہیں جنہوں نے اپنے دین ، اپنی تہذیب ، اپنی روایات کو ہندوؤں کے چُنگل سے بچانے اور اسلام کے سایے میں زندگی بسر کرنے کے لیے جنگ لڑی اور آگ اور خُون کے وسیع اور ہولناک سمندر سے گزر کر پاکستان کے ساحل ِ مُراد پر پہنچے۔یہ خُونیں سرگزشت انہی کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں، پاکستان کو سمرقند و بخارا بنانے کی تگ و دو میں جو لوگ مصروف ہیں ، اُن کے نعروں اور شرعی وضع قطع سے دھوکا نہ کھائیں اور کُفر و الحاد کے ان علمبرداروں کےخلاف اُسی جوش و جذبے کے ساتھ بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہو جائیں جس جذبے کے ساتھ وہ ہندوؤں کے عزائم کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔اُس وقت جو خطرہ مسلمانانِ ہند کو ہندوؤں سے تھا آج وہی خطرہ پاکستان کی اسلامی مملکت کو سوشلزم کے گماشتوں اور اُن کے نام نہاد و شرعی رکابداروں سے ہے۔
آباد شاہ پوری

1 comment:

  1. Such things must be published for the awareness of Muslim ummah.Great job .

    ReplyDelete