قسط نمبر3
مسلسل کئی گھنٹے چلنے کے
بعد اگلے روز میں خضر آباد کے قریب پہنچا۔ خضر آباد ہمارے قصبے قائقی سے کوئی 24میل
کے فاصلے پر واقع ہے۔خاصا بڑا گاؤں ہے۔ریلوے لائن پاس سے گزرتی ہے۔گاؤں تک پہنچنے
کے لیے دریائے سیحوں عبور کرنا پڑتا ہے۔قریب پہنچا تو دیکھا کہ رُوسی فوج نے گاؤں
کو گھیر رکھا ہے۔کوئی ہزار ڈیڑھ ہزار فوجی ہوں گے۔بعد ازاں پتہ چلا کہ خضر آباد میں
بھی کمونسٹوں نے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی
اور دریدہ دہنی کی تھی، چنانچہ عوام مشتعل ہو کر ان کی تکا بوٹی کر دی، ریلوے لائن
اُکھاڑ ڈالی اور بغاوت کا پرچم بلند کر دیا۔رُوسی فوج انہیں کچلنے آئی تھی۔فوج کا
پہرا بڑا سخت تھا۔روسی جگہ جگہ رائفلیں تانے کھڑے تھے اور کوئی شخص ان سے بچ کر نہ
جا سکتا تھا۔میں ایک انتہائی پریشان کُن مشکل میں پڑ گیا۔یہاں سے واپس جا سکتا تھا
نہ بھاگ سکتا تھا ، نہ چھُپنے ہی کی کوئی جگہ تھی۔اس روز میں پہلی بار موت کو اپنے
سر پر کھڑے دیکھا۔فوجیوں کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹکا اور پھر زبان پر ایمانِ
مجمل اور مفصل بے اختیار جاری ہو گئے اور ایک عجیب عالمِ خود فراموشی طاری ہو گیا۔قدم
اٹھائے اور چل پڑا۔ہوش و حواس ٹھکانے ہوئے ، تو دیکھا فوجی بہت دُور پیچھے رہ گئے
ہیں۔فوالواقع یہ ایک حیران کن تجربہ تھا۔میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس
راستے پر قدم قدم پر روسی فوج کے سپاہی پہرا دے رہے تھے وہاں ان کی نگاہوں سے بچ
کر کیسے نکل آیا۔
اسی شام "اوئچی
"پہنچا ، یہاں والد مرحوم کے ایک ہم سبق عالم رہتے تھے۔علم و عمل کے لحاظ سے
بڑی زبردست شخصیت کے مالک تھے۔سوشلزم کے چُنگل اس شہر پر بھی دراز ہو چکے تھے اور
ان کا پہلا شکار والدِ مرحوم کے یہی دوست ہوئے تھے۔لوگوں نے بتایا کہ اس مردِ حق
پرست کو گزشتہ رات کمونسٹوں نے شہید کر دیا۔اہل محلہ نے مجھے نمنگان جانے والے
راستے پر ڈال دیا۔اگلے روز میں نمنگان پہنچ گیا۔یہ میرا ننہیالی شہر ہے۔یہاں میری
والدہ کی جائداد اور حویلی تھی، جو انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔نمنگان کے
حالات نسبتاً بہتر تھے۔چند روز یہاں رہا اور پھر ریل گاڑی کے ذریعے خوقند پہنچا۔
خوقند ، تُرکستان کا تاریخی
شہر ہے۔خاصا وسیع اور بڑا۔زار شاہی کے خاتمے پر ترکستان میں جو چند روزہ آزاد حکومت
قائم ہوئی ، اُس کا صدر مقام یہی تھا۔قائقی سے 152میل کے فاصلے پر ہے۔خوقند میں
کمونسٹوں کے مظالم پُورے عروج پر تھے۔ان سے تنگ آکر مسلمانوں نے ایک خُفیہ تحریک
شروع کر دی تھی۔جب بھی کمونسٹ، اسلام اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے خلاف دریدہ دہنی کرتے یا علما کو اذیت دیتے، تحریک کے رضا کار رات کے وقت
اُنہیں قتل کر ڈالتے اور ان کا سر ایک بند گاڑی میں رکھ کر پولیس چوکی پر پہنچا دیتے۔ساتھ
ہی ایک رقعہ چھوڑ جاتے جس میں کچھ اس قسم کی عبارت ہوتی تھی:
"تم لوگ دِین
کے خلاف بہتان طرازی اور ہرزہ سرائی کرتے ہو اور ہمارے علما کو اپنی خرافات کا
جواب دینے کا موقع نہیں دیتے۔ہمارے بچوں کو اسلام سے بدظن کرتے ہو، اب ہم تم سے اسی
طرح نبٹیں گے"۔
مسلمانوں کی اس جوابی
تحریک سے کمونسٹوں میں خوف و ہراس کی زبردست لہر دوڑ گئی تھی۔کوئی کمونسٹ اپنی جان
محفوظ نہ سمجھتا تھا۔ادھر رات ہوتی ، اُدھر وہ اپنے گھروں میں دبک جاتے۔آخرِ کار
مسجدوں اور بازاروں میں اعلان کروایا گیا کہ کسی شخص کو زبردستی کمونسٹ نہیں بنایا
جائے گا۔وہ کمونسٹ پارٹی میں شامل ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی اپنی صوابدید اور مرضی
پر منحصر ہے۔نیز روحانیوں کو بھی راشن کارڈ جاری کیے جائیں گے۔اگرچہ کمونسٹوں نے
محض ایک چال چلی تھی ، تاہم میری طرح اور بہت سے سادہ دل لوگ بھی اس اعلان سے
مطمئن ہو گئے۔میں نے فیصلہ کیا کہ یہیں رہ کرعلمِ دین حاصل کروں گا۔
شیخ محمد جان عرف بائی دچہ داملا ، خوقند کے
مشہور عالم تھے۔
میرے نان کے شاگرد اور
والد ِ مرحوم کے ہم سبق رہ چکے تھے۔
کمونسٹوں نے اُنہیں اپنے
گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔اس اعلان کے بعد اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔اپنا تعارف
کرایا اور عرض کی:
"میں یہیں رہ کر دینی
تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں"۔
شیخ کچھ دیر تک خاموش
رہے، پھر فرمایا:
"بیٹا، دینی تعلیم
کی تحصیل ممنوع قرار دی جا چکی ہے۔صرف ایک صورت ہے، تم دن بھر نہ سہی ، آدھا دن ہی
شہر میں محنت مزدوری کرو، اس طرح تمہیں میرے ہاں رہنے کا بہانہ مل جائے گا"۔
میں نے اس تجویز سے
اتفاق کیا۔دن بھر محنت مشقت کرتا اور رات کو شیخ سے علم ِ دین حاصل کرتا۔شیخ
محمدجان داملا ، کمونزم کے نظریئہ الحاد پر گہری نظر رکھتے تھے۔تعلیم دیتے وقت سب
سے زیادہ زور اسی پر دیتے۔کمونسٹ جو دعوے کرتے اور اسلام پر جو بہتان گھڑتے ، اُن
کا پردہ بڑے قومی دلائل سے چاک کرتے۔
مجھے خوقند میں وارد
ہوئے تیسرا مہینہ جا رہا تھا کہ کمونسٹوں نے اپنی اسلام دشمن سرگرمیاں پھر سے شروع
کر دیں۔کمونسٹ حکومت نے پوری آبادی کی محلہ وار فہرست مرتب کی اور اسلام پسند شہریوں
کی کڑی نگرانی کرنے لگی۔"عوامی پولیس"میں شہر کے غنڈے اور بدمعاش بھرتی
کیے اور ان کے ذریعےاہلِ دین کو ڈرانے دھمکانے اور زدکوب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔پھر
گرفتاریوں اور اعترافِ جرم کا وسیع شیطانی چکر چل پڑا۔ستر اسی آدمی روزنہ غائب
ہونے لگے۔میں خوقند کے متعدد بچے کھچے علماء کی خدمت میں حاضر ہوا، ان سے اس نازک
و سنگین صورتِ حال کا زکر کیا اور رہنمائی چاہی ، مگر وہ لوگ بالکل مایُوس اور بے
بس ہو چکے تھے۔اکثر کا جواب یہی تھا:
"بیٹا ، ہم لوگ تو
موت اور شہادت کی گھڑیا گِن رہے ہیں"۔
No comments:
Post a Comment