پہلی قسط
"چونکہ ایک طاقت
کی حتمی سلامتی کا مطلب باقی ساری طاقتوں کی حتمی غیر سلامتی ہے۔اس لیے اس کا حصول
صرف فتح سے ممکن ہے۔جائز فیصلے سے ایسا کبھی نہیں ہوتا۔"
(ہنری کسنجر:دی مائٹ
آف نیشن ، ورلڈ پولیٹکس ان اوور ٹائم نیویارک ، 1965ء)
عنوان پڑھ کر پہلے آپ
کو کچھ سنسنی محسوس ہوئی ہوگی پھر آپ نے اسے معمول کی چیز یا سنسنی پھیلا کر توجہ
حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا ہوگا۔ہم آپ کے کسی ردِ عمل کی نفی
نہیں کرتےنہ اسے ناواقفیت قرار دے کر رد کرتے ہیں۔ہماری آپ سے درخواست ہے کہ پہلے
ذیل کا ایک اقتباس پڑھ لیجئے، پھر کچھ ایسے حقائق جو مغرب کی منصف مزاج اور
انسانیت پسند محققین نے نادیدہ آنکھوں کی نگرانی اور خفیہ ہاتھوں کی کارستانیوں کی
پروا نہ کرتے ہوئے دنیا کے سامنے پیش کیے اور آخر میں نوجوان کا وہ خط جو اس نے
جان کی پروا نہ کرتے ہوئے تحریر کیا۔اس خط سے جہاں دنیا بھر میں سرگرم انسانیت
دشمن دجالی قوتیں بے نقاب ہوتی ہیں، وہیں یہ بات بھی سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان پر
دجال کے کارندوں کی خصوصی نظر ہے اور تاریکی کے فتنے"دجالِ اعظم"کے خلاف
جو ہدایت یافتہ لشکر اُٹھے گا، اس میں اہلِ پاکستان کا بھی بہت بڑا کردار ہوگا۔تو
آیئے! پہلے مستقبل کی دنیا کا ایک خاکہ جو دجالی قوتوں نے ترتیب دیا ، دیکھ لیتے
ہیں تاکہ یہ سمجھنے میں آسانی ہو کہ رحمان کے بندے اس شیطانی مہم سے آگاہی کے بعد
کیا کچھ کر سکتےہیں؟
بارہ سرداروں کے ایک ارب غلام
ایک عالمی حکومت اور
ون یونٹ مانیٹری سسٹم ، مستقل غیر منتخب موروثی چند افراد کی حکومت کے تحت ہوگا۔جس
کے ارکان قرونِ وسطیٰ کے سرداری نظام کی شکل میں (یعنی بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں
کے بارہ سرداروں والے نظام کی شکل میں) اپنی محدود تعداد میں سے خود کو منتخب کریں
گے۔اس ایک عالمی وجود میں آبادی محدود ہوگی اور فی خاندان بچوں کی تعداد پر پابندی
ہوگی۔وباؤں ، جنگوں اور قحط کے ذریعے آبادی پر کنٹرول کیا جائے گا۔یہاں تک کہ صرف
ایک ارب نفوس رہ جائیں گے جو حکمران طبقے کے لیے کارآمد ہوں اور ان علاقوں میں ہوں
گے جن کا سختی اور وضاحت سے تعین کیا جائے گا اور یہاں وہ دنیا کی مجموعی آبادی کی
حیثیت سے رہیں گے۔
اس اقتباس میں مستقبل
کی ان منصوبوں کی نقشہ کشی کی گئی ہے جو دنیا کی ایک مخصوص قوم کے فتور زدہ دماغ
میں پلتے ہیں۔دنیا میں در پردہ مصروف کار ایک مخصوص گروہ دراصل کرۂ ارض پر بلاشرکت
غیرے حکمرانی چاہتا ہے۔اسکی اپنی تعداد چونکہ بہت کم ، محدود اور قلیل ہے اس لیے
وہ ہر صورت میں رنگ دار نسلوں اور صاحب ایمان افراد کو ختم یا کم کرنا چاہتا ہے۔یہ
تعصب مذہبی بھی ہے اور نسلی بھی۔اس کی زد میں رنگ دار پسماندہ اقوام بھی آتی ہیں
اور جھوٹی خدائی اور جھوٹی نبوت کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے صاحبِ عزیمت اہل
ایمان بھی۔اس گروہ کو اپنی نسلی برتری کا جھوٹا زعم ہے۔اس کے خیال میں وہ اللہ
تعالیٰ کے بیٹے اور چہیتے ہیں۔ان کے منصوبے کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام رنگ دار اقوام
کم تر اہلیت اور اہمیت کی حامل ہیں۔اس کے باوجود خدشہ یہ ہے کہ وہ محض اپنی بڑھتی
ہوئی آبادی کے زور پر دنیا میں تسلط اور غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی
رنگ دار اقوام کی اس بڑھتی ہوئی آبادی کا مقابلہ کرنے کےلیے امریکہ اور یورپ کااپنی
آبادی کو بڑھانا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔کیونکہ امریکا اور یورپی اقوام
خود اپنے ہی دام میں پھنس کر اپنی آبادی کی شرح خطرناک حد تک کم کر چکی ہیں اور
نوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ عام یورپی اور امریکی فرد خاندان اور بچوں کے کسی
جھنجھٹ میں پڑنا ہی نہیں چاہتا اور
“Enjoythyself”
معروف مغربی اصول کے تحت اپنی زندگی ذمہ داری سے پاک اور
عیش و عشرت سے بھر پور گزارنا چاہتا ہے۔چنانچہ مغربی پالیسی سازوں کو اب یہی حل
نظر آتا ہے کہ دوسرے خطے کے لوگوں کی آبادیاں بھی اس حد تک کم کر دی جائیں کہ کبھی
ان کا مقابل آنے کا خطرہ پیدا نہ ہو سکے۔اس کے لیے گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہمہ
جہت مہم چلائی جا رہی ہے۔علمی و نظریاتی سطح پر لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ،
ابلاغی محاذ پر سرگرمی ، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی میدانوں میں آبادی کے حوالے سے
مطلوب پالیسی اقدامات اور ان اقدامات کے لیے بااثر حلقوں کی حمایت کا حصول اس ہمہ
گیر مہم کے اہم عنوانات ہیں۔حکمت عملی یہ ہے کہ براہِ راست بھی اور بالواسطہ طور
پر عالمی اداروں کے ذریعے بھی غربت کے خاتمے ، اقتصادی ترقی اور ماں بچے کی صحت
جیسے پروگرامات کے پردے میں تحدید آبادی کی مہم کو کامیاب بنایا جائے۔اس ضمن میں
اگر ترغیب و تحریص سے کام نہ نکل سکے تو جنگ ، جبر ، زور زبردستی حتٰی کہ ایٹمی
اور کیمیائی جنگ کے بارے میں بھی سوچنے اور عمل کرنے کے لیے تیار رہا جائے۔انسانی
آبادی کم کرنے کی مہم کو"فلاح و بہبود" کا نام دیا جاتا ہے۔مختلف
بیماریوں کے علاج کے لیے مفت گولیوں ، ٹیکوں اور قطروں کی فراہمی کو انسان دوستی
کہا جاتا ہے۔یہ نہ فلاح و بہبود ہے اور نہ انسان دوستی۔یہ انسان کشی کی وہ
سنگدلانہ مہم ہے جو انسانیت کو اپنی مرضی کے تحت محکوم و محدود بنانے کے خبط میں
مبتلا ایک گروہ نے برپا کی ہے۔آپ شاید اس کو مبالغہ یا حساسیت قرار دیں گے لیکن اس
مضمون کے احتتام تک ہمارے ساتھ چلتے رہیے تو آپ یقیناً اس نتیجے تک پہنچ جائیں گے
جو تحقیق اور حقائق کی تہہ سے برآمد ہوا ہے۔
انسانیت کے خلاف جراثیمی جنگ
اس وقت ہم دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی ، تولیدی صلاحیت کم
کرنے والی ویکسین وغیرہ کی شکل میں جو عالمگیر مہم چلتی دیکھ رہے ہیں۔یہ درحقیقت
ایک مخصوص انسانی گروہ(جو خوفناک حدتک سنگدل اور خودغرض ہے) کے مفاد کے لیے کھیلا
جانے والا طاقت ، سیاست اور مفادات کا عالمی کھیل ہے جو کہیں ترغیب و تحریص اور
کہیں جبر و دباؤ کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے۔کبھی اس کے لیے انسانیت کا لبادہ اوڑھ
لیا جاتا ہے اور کہیں بوقت ضرورت ریاستی طاقت اور ریاستی ادارے جبر و تشدد کا
ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں۔مانع حمل گولیوں سے لے کر متعددی جراثیمی بیماریاں
پھیلانے تک ایک لرزہ حیز شیطانی سلسلہ ہے جو ابلیس کے نمایندۂ اعظم"الدجال
الاکبر"کی عالمی حکومت کا خواب پورا کرنے کے لیے چلایا جارہا ہے۔آیئے ! ایک
نظر اس شیطانی مہم پر اور پھر یہ دلیرانہ عزم کہ ہم ان شاء اللہ شریعت سے چمٹے رہ
کر ساری عمر گزار دیں گے کہ اسی میں ہمارا بچاؤ ہے ، اس عالمگیر تباہی سے جس سے
ابلیس کے کارندے انسانیت کو دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
1970ء کی دہائی تک یہ بات زیادہ سے زیادہ واضح ہوتی جا رہی
تھی کہ یورپ اور سفید فام امریکا کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔اگر کچھ نہ کیا
گیا تو تیسری دنیا کی اقوام کی آبادی کا بڑھتا ہوا حجم"فری میسنز" کے
زیر کنٹرول ممالک کی قومی سلامتی کو شدید خطرے سے دوچار کر دے گا۔مغرب جس جنسی
آزادی اور بے راہ روی کا شکار ہوگیا ہے، اس کے بعد اب وہ بچوں کی ذمہ داری
سنبھالنے پر کسی صورت تیار نہیں۔مختلف قسم کی ترغیبات اور مراعات کے باوجود مغرب
کی مادر پدر آزاد نئی نسل خاندان کی کفالت کرنے یا بچوں کی تربیت کا بوجھ اُٹھانے
کے لیے آمادہ نہیں۔خاندانی نظام کی اس تباہی کا نتیجہ یہ ہے کہ بچوں کی تعداد
خوفناک حد تک کم ہوتی جارہی ہے اور صورتِ حال یہی رہی تو مغرب کی قوتِ صارفین اور
پیداواری صلاحیت کم ہو جائے گی اور نتیجے کے طور پر وہ مکمل طور پر تیسری دنیا کی
آبادی پر انحصار کرنے والے بن جائیں گے۔اس تناظر میں کسی نہ کسی طرح مغربی آبادی
اور تیسری دنیا کی آبادی کے درمیان حائل اس خلیج کو پاٹنے کی ضرورت تھی تاکہ عالمی
سطح پر مغربی برتری یا زیادہ واضح انداز میں "میسن برادری" کے تسلط کو
بحال کیا جاسکے۔1970ء کی دہائی میں صدر کارٹر نے"عالمی رپورٹ برائے 200ء"
تیار کرانے کو کہا۔رپورٹ کے تنائج میں دنیا بھر کے تقریباً تمام مسائل کا ذمہ دار
"غیر سفید فام" لوگوں کی آبادی میں اضافے کو ٹھہرایا گیا۔رپورٹ میں یہاں
تک سفارش کی گئی کہ مغرب کی برتری کو بحال کرنے کے لیے2000ء تک تیسری دنیا کے
ممالک کی کم از کم 2 بلین آبادی کو سطح زمین سے مٹا دیا جائے۔اس کی صورت کیا
ہو؟انسانی آبادی کے خاتمے کا ایک طریقہ تو جنگ ہے، لیکن اس کو شروع کرنا تو انسان
کے بس میں ہوتا ہے ، ختم کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا، اس لیے ایک دوسرا طریقہ
اختیار کیا گیا جو اس منصوبے کو چلانے والی قوتوں کی انتہائی سنگدلی اور انسانیت
دُشمنی پر دلالت کرتا ہے۔وہ طریقہ اب تک سامنے آنے والی بیماریوں میں سے سب سے
خطرناک بیماری پھیلانے کی شکل میں تھا۔مجھے یقین ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں
"ایڈز " کا ذکر کر رہا ہوں۔جی ہاں! ایڈز قدرتی بیماری نہیں، مصنوعی
جرثوموں کےذریعے پھیلایا گیا مصنوعی جال ہے۔
رحم دل عیسائی محققین
یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ70ء ہی کی دہائی میں
۔۔۔۔۔یعنی جب یہ مندرجہ بالا رپورٹ پیش کی گئی۔۔۔۔۔۔ایڈز کی وبا پھوٹ پڑی جس نے
تیسری دنیا کی اقوام کی بہت بڑی آبادی کے ساتھ ساتھ امریکا میں ہسپانوی نژاد ،
لاطینی امریکا میں آبادی کو موت کے منہ میں دھکیل دیا۔کہا یہ گیا کہ اس بیماری کے
وائرس کی ابتدا افریقہ کے سبز بندروں سے ہوئی۔2 جون 1988ء کو لاس اینجلس تائمز نے
ایک آرٹیکل چھاپا جس میں اس آئیڈیا کی تردید کی ہے کہ انسانی وائرس سبز بندروں سے
پھیلے ہیں۔اس سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ
DNA
اپنی مثل پیدا کرنے والا مادہ جو جینی یا حلقی خصوصیا کے
خاکے کا حامل ہوتا ہے۔۔۔۔ایڈز کے مادہ کی ساخت سبز بندروں کے مادے کی ساخت سے
قطعاً جداگانہ تھی۔بلکہ حقیقت میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ایڈز وائرس قدرتی
لحاظ سے کہیں بھی نہیں پائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی یہ انسانی زندگی کے سسٹم کے
اندر زندہ رہ سکتے ہیں۔اگر وائرس قدرتی لحاظ سے نہیں پایا جاتا تو پھر سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ یہ وائرس اچانک کہاں سے آگیا ہے؟اس سوال کے جواب کے لیے دنیا کو
ایک غیر صہیونی امریکی ماہر ڈاکٹر رابرٹ اسٹریکر کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ سب سے
پہلے انہوں نے اس راز سے پردہ اُٹھایا۔وہ عیسائی حضرات جو صہیونیت کا شکار ہو کر
شدت پسند یہودیوں کے ہم نوا نہیں ہوئے اور ان کے دل میں انسانیت کے لیے رحم اور
ترس ہے۔یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد ان شائ اللہ مسلمان ہو کر
مجاہدینِ اسلام کے ساتھ قافلۂ حق میں شریک ہو جائیں گے۔ہم سب کو ان کی ہدایت اور
خاتمہ بالخیر کے لیے دعا کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر رابرٹ بی اسٹریکر ایم ڈی ، پی ایچ ڈی 1983ءمیں لاس
اینجلز میں میڈیسن میں پریکٹس کرتے تھے۔وہ مشہور پیتھالوجسٹ اور وہ فارما کولوجی
میں پی ایچ ڈی بھی رکھتے تھے۔ان کے بھائی"ٹیڈ اسٹریکر" اٹارنی تھے۔وہ
1983ء میں کیلیفورنیا میں سیکورٹی پیسیفک بینک کے لیے صحت عامہ سے متعلق تجاویز
مرتب کر رہے تھے۔اس وقت دونوں بھائیوں نے نئے مرض"ایڈز" سے متعلق
تفصیلات معلوم کرنے کے لیے تحقیق کا آغاز کیا اور انہیں ایسے نتائج حاصل ہوئے جو
نہ صرف حیرت انگیز بلکہ ناقابلِ یقین تھے۔انہوں نے اپنی تحقیقات پر مشتمل مقالہ
کو"اسٹریکر میمورنڈم" کا نام دیا۔
انہوں نےاپنے میمورنڈم میں ثابت کیا ہے کہ ایڈز کے وائرس
انسان کے تخلیق کردہ ہیں۔اس حوالے سے انہوں نے متعدد دستاویزی ثبوت پیش کیے ہیں۔دوسری طرف امریکی
حکومت نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ایک افریقی باشندے کو ایک سبز بندر نے کاٹ لیا
جس کے سبب ایڈز کا مرض پیدا ہوا ، لیکن جیسے جیسے ڈاکٹر اسٹریکر کی تحقیقات میں
پیش رفت ہوتی گئی ، یہ بات پائے ثبوت کو پہنچ گئی کہ ایک مخصوص مذہبی طبقے سے تعلق
رکھنے والے سائنسدانوں نے نہ صرف ایڈز کے وائرس تخلیق کیے بلکہ انہیں پھیلایا بھی
گیا۔اس طرح اب انسانوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہےکیونکہ ایڈز کے وائرس وہی کام
کر رہے ہیں جن کے لیے انہیں تخلیق کیا گیا تھا۔ایڈز کے وائرس متعدی امراض کے وائرس
کے سہارے انسانوں میں کینسر کا مرض بھی پیدا کرتے ہیں۔تحقیق کے اس مرحلہ پر ڈاکٹر
اسٹریکر کو یہ بات کھٹکنے لگی کہ امریکی حکومت ، ایڈز کے نام نہاد ماہرین اور
ذرائع ابلاغ عوام کو غلط معلومات فراہم کر کے گمراہ کر رہے ہیں۔چنانچہ ڈاکٹر
اسٹریکر نے اپنے میمورنڈم میں حقائق کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
1۔۔۔۔ایڈز کا مرض انسان کا تخلیق کردہ ہے۔
2۔۔۔۔ایڈز ہم جنسیت کے سبب لاحق نہیں ہوتا۔
3۔۔۔۔ایڈز کا مرض مچھروں کے ذریعے بھی پھیلتا ہے۔
4۔۔۔۔کنڈوم استعمال کر کے ایڈز سے محفوظ نہیں رہا جا سکتا۔
5۔۔۔۔کسی بھی ویکسین سے ایڈز کا علاج ممکن نہیں۔
ڈاکٹر اسٹریکر نے خطرناک دستاویزات پر مشتمل اپنی ایک
رپورٹ"بائیو الرٹ اٹیک" کے نام سے مرتب کی اور امریکا کی ہر ریاست کے
گورنر ، صدر ، نائب صدر ، ایف آئی ، سی آئی اے ، ناسا اور کانگریس کے منتخب ارکان
کو بھیجی ، لیکن ڈاکٹر اسٹریکر کو اس وقت حیرت ہوئی جب حقائق پر مبنی رپورٹ موصول
ہونے پر صرف تین گورنروں نے جواب دیے، اور حکومت کی طرف سے تو کوئی جواب ہی نہیں
ملا۔چنانچہ 1985ء میں ڈاکٹر اسٹریکر نے حکومت سے کہا کہ ہر وہ شخص جس میں ایڈز کے
وائرس موجود ہوں ، قبل از وقت انتہائی اذیت کے ساتھ مر جائے گا، لیکن حکومت نے اس
کے جواب میں کہا:"یہ بیہودگی ہے۔"
ڈاکٹر اسٹریکر نے ایک اچھے سائنسدان کی طرح متعدد مقالے لکھ
کر امریکا میں تمام ممتاز میڈیکل جرنل کو بھیجے ، لیکن انہوں نے اسے شائع کرنے سے
انکار کر دیا۔چنانچہ ڈاکٹر اسٹریکر نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ یورپ میں شائع کرانے کی
کوشش کی ، لیکن یہاں بھی انہیں یہ دروازہ بند ملا۔پھر انہوں نے امریکی ٹی وی پر
اپنی رپورٹ پیش کرنے کی کوشش کی ، لیکن یہاں بھی انہیں ناکامی ہوئی ، تاہم ایک
نیشنل ریڈیو نٹ ورک نے ایک ممتاز کمپیئر کی موجودگی میں ڈاکٹر اسٹریکر کا انٹرویو
کیا ، لیکن بعد ازاں اس نے بھی اسے نشر کرنے سے انکار کر دیا اور وجوہات بھی ظاہر
نہیں کیں۔چنانچہ اس صورتحال میں یہ امر قابلِ غور ہے کہ ڈاکٹر اسٹریکر کی تحقیقاتی
رپورٹ میں ایسی کون سی دھماکہ خیز بات ہے جسے امریکی ریڈیو ، ٹی وی اور اخبارات نے
شائع کرنے سے انکار کر دیا۔
حکومت یا ذرائع ابلاغ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے میں کیوں
پس و پیش کر رہے ہیں؟ہم سب یہ جانتے ہیں کہ ایک بادشاہ کے لیے جھوٹ کو سچ کر
دکھانا آسان ہوتا ہے ، لیکن ایک گدا گر کے لیے حق بات کو عام کرنا انتہائی مشکل
ہوتا ہے۔بہر حال ڈاکٹر اسٹریکر نے کہا کہ بہر صورت ہم ایڈز کے متعلق حقائق بیان کر
رہے ہیں ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں مریضوں کے متعلق حقائق سے آپ کو آگاہ نہیں
کیا جا رہا ۔
ڈاکٹر اسٹریکر نے یہ سوال اُٹھایا ہے کہ ماہرین سبز بندروں
اور ہم جنسی کو اس موذی امراض ایڈز کی بنیاد کیوں بتاتے ہیں؟ جب یہ معلوم ہو چکا
ہے کہ انسان نے ایڈز کے وائرس تخلیق کیے تو وہ کیوں ہم جنسی اور منشیات کو اس کی
بنیاد قرار دیتے اور اس کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں؟اگر افریقا میں یہ مرض مختلف جنسی
امراض کے ذریعے پھیلا اور اگر حقیقت میں سبز بندر ہی اس موذی مرض کا منبع ہے تو
پھر افریقا ، ہیٹی ، برازیل ، امریکا اور جنوبی جاپان میں یہ مرض ایک ہی وقت میں
کیوں پھیلا؟اس لیے کہ ایڈز کے وائرس یہودی سائنس دانوں نے تجربہ گاہوں میں تیار
کیے اور یہ خود بخود وجود میں نہیں آئے۔چنانچہ ڈاکٹر اسٹریکر نے اس موقف کو ان
الفاظ میں بیان کیا ہے:
"آگر ایسا آدمی جس کے نہ ہاتھ ہوں اور نہ پیر ، اور وہ ایک
تقریب میں اچھا لباس پہن کر آئے تو اس کا یہ مطلب ہوگا اس کو کسی نے کپڑے پہنائے
ہیں۔"
ڈاکٹر تھیوڈور اسٹریکر کی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ
"نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ" اور "عالمی ادارۂ صحت" نے مشترکہ طور
پر فورٹ ڈیٹرک(اب این سی آئی) کی تجربہ گاہوں میں ایڈز کے وائرس تخلیق کیے ، انہوں
نے دو مہلک وائرسز "بوئین لیکومیا وائرس" اور شیپ وسنا وائرس" کو
ملایا اور انہیں انسانوں کی بافتوں میں انجکشن کے ذریعے داخل کیا، جس کے نتیجہ میں
ایڈز کے وائرس پیدا ہوئے اور جن انسانوں میں یہ وائرس تخلیق کیے گئے وہ صد فیصد
مہلک ثابت ہوئے۔رفتہ رفتہ دوسروں کو تباہ کرنے کی کوشش خود امریکیوں کے گلے کا
پھندا بن گئی اور لاکھوں امریکی اس کی ہلاکت کا باعث ثابت ہوئی۔
ڈاکٹر اسٹریکر کی یہ تحقیق سامنے آنے کے بعد4 جولائی 1984ء
کو انڈیا میں دہلی کے نیوز پیپر "دی پیٹری اوٹ" میں ایک آرٹیکل چھپا جس
میں ایڈز کے متعلق پہلی بار یہ تفصیل بیان کی گئی کہ ایڈز حیاتیاتی جنگ کا ایک
متوازی ذریعہ بنتا جا رہا ہے۔اخبار نے ڈاکٹر اسٹریکر کو ایک گمنام امریکن ماہر
ظاہر کر کے نقل کیا کہ ایڈز کا وائرس امریکی آرمی کے ماتحت چلنے والی ایک حیاتیاتی
لیبارٹری میں جو فریڈرک کے قریب فورٹ ڈٹرک میں ہے، تیار کیا گیا۔پھر 30
اکتوبر 1985ء کو سوویت یونین کے روزنامہ
“Glitterg”
میں ایک کالم نگار
“Liternia Gazetta”
نے وہی الزام دہرایا جو انڈین نیوز پیپر کی جانب سے لگایا
گیا تھا جس کی وجہ سے یہ ایک بین الاقوامی بحث کی شکل اختیار کر گیا۔تاہم
"برادری"کے تحت چلنے والے میڈیا نے یہ سب کچھ کمیونسٹوں کی بلیغانہ بھڑک
قرار دے کر رد کر دیا۔
26 اکتوبر 1986ء کو سنڈے ایکسپریس وہ پہلا مغربی اخبار تھا
جس نے اس موضوع پر "فرنٹ پیج اسٹوری" کا آغاز کیا جس کا عنوان
“AIDS made in lab shocks”
تھا۔جس نے انڈیا اور سوویت یونین کے انکشافات کی تصدیق
کی۔اس آرٹیکل میں دو نامور ماہرین ڈاکٹر جان سیل اور پروفیسر جیکب سیگال جو برلن
یونیوورسٹی کے شعبہ حیاتیات کے ریٹائرڈ ڈائریکٹر ہیں ، ان دونوں کے حوالے سے یہ
حتمی رائے نقل کی گئی کہ ایڈز وائرس انسانی بنائے ہوئے ہیں۔ان دونوں کے اس بیان نے
گویا اس موضوع پر بحث کو ختم کر دیا اور یہ بات حتمی طور پر سامنے آگئی کہ ایڈز کی
شکل میں پسماندہ انسانیت کو موت کا تحفہ دینے والے سنگ دل یہودی سائنس دان عام
انسانوں کے لیے رتی بھر ترس کے جذبات دل میں نہیں رکھتے۔
یہاں تک اتنی بات تو طے ہوگئی کہ طبی تاریخ میں خطرناک ترین
سمجھا جانے والا"ایڈز وائرس" انسانوں نے خود بنایا ہے۔یہ خطرناک چیز
کیوں بنائی گئی ہے اور پھیلائی کیسے جاتی ہے؟اس کی تفصیل کی طرف آتے ہیں۔ایڈز کا
ہنگامہ ویکسین پروگرام کے ساتھ دنیا بھر میں جوڑا جاتا رہا ہے۔معروف انٹرنیشنل
نیوز پیپر "لندن ٹائمز" نے ایک فرنٹ اسٹوری آرٹیکل شائع کیا جس کا عنوان
تھا
“Small packs vaccine Triggered AIDS”
یہ آرٹیکل چیچک ویکسین پروگرام اور ایڈز کے ہنگامے اور پھوٹ
پڑنے والی وباؤں کے درمیان تعلق ثابت کرتا ہے۔ان علاقوں میں جن میں ورلڈ ہیلتھ
آرگنائزیشن اس ویکسین پروگرام کو منظم انداز میں چلا رہی تھی ایڈز کا پھیلاؤ واضح
طور پر سامنے آرہا تھا۔آیک اندازے کے مظابق "عالمی تنظیم صحت" یہ
پروگرام 50 سے 70 ملین لوگوں کے درمیان وسطی افریقہ کے مختلف ممالک میں چلا رہی
تھی۔یاد رہے کہ "ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن" اقوامِ متحدہ کا ذیلی ادارہ ہے
جو کرۂ ارض کے باشندوں کی صحت کے "تحفظ اور "بہتری" کے لیے بنایا
گیا ہے۔یعنی وہی دجل و فریب جو دجالی قوتوں کا خاصہ ہے یہاں بھی اپنا آپ دکھاتا
اور منواتا نظر آ رہا ہے۔
ویکسین پروگرام کی آڑ میں
ماہرین کے مطابق متعدد شہادتیں ثابت کرتی ہیں کہ ایڈز ایک
جینیاتی وائرس ہے جو ویکسین پروگرام کے ذریعے تیسری دنیا کے ممالک میں پھیلایا جا
رہا ہے۔یہ جراثیمی جنگ کمزور اور معصوم لوگوں کے خلاف ہےجس کا مقصد زمینی وسطی
خلقت کو مکمل طور پر تباہ کرنا ہے۔ایڈز اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ یہ
دجالی"برادری" کے گرینڈ ماسٹرز کا اپنی آبادی کی کمی اور "غیر
برادری" کی کثرت کے باوجود دنیا پر تسلط حاصل کرنے کا آخری حل ہے۔اس کا مقصد
یہ ہے کہ "جیوش اکانومک پالیسی" کو دنیا پر مسلط کیا جائے جس کی وجہ سے
کرۂ ارض کی مکمل سلطنت فری میسن کے ہاتھ میں ہوگی۔
دجالیات کے نامور ماہر اسرار عالم کی شہادت ملاحظہ
فرمائیے۔وہ اس راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں:
"اسی ذیل میں ابلیس اور یہودیت کا ایک اور ذہن کار
فرما ہے اور وہ ہے اہلِ ایمان کے تعلق سے۔چنانچہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ
چاہتے ہیں اگر انہیں بھی ملائکہ کی طرح "جی نومی" اور "جینیٹک
کوڈ" معلوم ہو جائے تو وہ بھی اپنے دشمنوں اور بالخصوص اہلِ ایمان اور اہل
اللہ کو اسی طرح "بندر" ، "کتا" اور "خنزیر" میں
بدل ڈالیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو بدل ڈالا ہے۔"جین تھیراپی"
کے تحت بنیادی طور پر اسی مشن کو پورا کیا جا رہا ہے۔بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے
کہ ہیپاٹائٹس بی نامی خود ساختہ اقدامی بیماری کے علاج کے لیے جو ٹیکہ دیا جاتا ہے
اسے کیرون کاری کمبی ویکس ایچ بی کہا جاتا ہے۔جو دراصل ایک جینیٹک انجیئرڈ ویکسین ہے۔ہیپاٹائٹس بی کی
حقیقت صرف اس بات سے معلوم ہو جائے گی کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یہ
بیماری اسرائیل کو چھوڑ کر ہر جگہ پائی جاتی ہے۔دنیا میں اب تک 50 کروڑوں لوگوں کو
اس کا ٹیکہ دیا گیا۔اسرائیل میں نہ یہ بیماری پائی جاتی ہے اور نہ ٹیکہ دیا گیا۔اس
کی مہمیں ساری دنیا میں چلائی جارہی ہیں۔آنے والا وقت بتائے گا کہ یہ علاج ہے نہ
علاج کا تجربہ۔یہ تو اس مشن کے ہزاروں تجربوں میں سے ایک تجربہ ہے جس کے تحت اپنے
دشمنوں کے نسل کو نسلاً بعد نسل بندر ، کتا اور خنزیر بنانے کی بات سوچی جا رہی
ہے۔"(معرکۂ دجالِ اکبرص:81)
کہانی آگے بڑھتی ہے
ایڈز کے علاوہ بھی کچھ وائرس
بنائے جا چکے ہیں، لیب میں محفوظ ہیں اور بوقت ضرورت بے دھڑک استعمال کیے
جاتےہیں۔یہ سن کر آپ کو انتہائی صدمہ ہوگا کہ ہمارا ملک پاکستان ان جراثیمی بیماریوں
کے پھیلاؤ کا مرکزی ہدف ہے۔مجھے بھی شدید صدمہ ہوا تھا۔اور یہ صدمہ اس وقت شدید
ترین ہوگیا۔جب مجھے ان افواہوں کی تصدیق ایک مضمون کی شکل میں موصول ہوئی۔اس مضمون
میں ایک صاحبِ قلم نے جو اپنا نام پردۂ اخفا میں رکھنا چاہتے تھے ، میں شہزاد نامی
نوجوان کی سچی کہانی کے ذریعے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہمارے ملک میں ایک ظالمانہ
شیطانی مہم منظم طریقے سے چل رہی ہے۔میں آپ کو اس صدمے میں اپنے ساتھ شریک کرتا
ہوں جو مجھے یہ کہانی سن کر ہوا ، تاکہ ہم سب مل کر اس شیطانی مہم کا کوئی توڑ سوچ
سکیں۔ملاحظہ فرمائیں پہلے ایک کالم پھر اس کالم سے پھوٹ پڑنے والے تجسس اور سراغ
رسانی کی روداد جو دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہے۔
No comments:
Post a Comment