قسط نمبر 4
اب کمونسٹ بالکل بے لگام
ہو چکے تھے ، وہ احتیاط جو خُفیہ تحریک کی وجہ سے انہوں نے چند روز کے لیے اختیار
کی تھی، بالائے طاق رکھ دی گئی تھی۔عوام بڑی حد تک لیڈر شپ سے محروم کر دیے گئے
تھے،اس لیے اب احتیاط کی ضرورت باقی بھی نہیں رہی تھی۔عام مسلمانوں میں جوش و خروش
کے بجائے دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے اور قوتِ مزاحمت جواب دے
گئی تھی۔کسی شخص کی جان اور عزت محفوط نہ تھی۔
میرے پاس ایک حمائل شریف(قرآن
کریم)تھی جس کے کچھ اوراق پھٹ گئے تھے۔میں ایک جِلد ساز کی دکان پر گیا۔یہ دکان
ٹوپی بازار میں تھی جو خوقند کی جامع مسجد کے شمال مغرب میں واقع ہے۔جلد ساز حمائل
شریف کے اوراق درست کر رہا تھا کہ ایک کمونسٹ آیا اور بولا:
"کیا میری کتابوں کی
جلد تیار ہو گئی ہے؟"
"ایک گھنٹے کا کام
باقی ہے، تیار کر کے پہنچا دوں گا"
جلد ساز نے جواب دیا۔
"یہ تمہارے ہاتھ میں
کیا ہے؟"اس نے جلد ساز سے پھر سوال کیا۔
"یہ ۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔۔"جلد
ساز گھبرا گیا۔"یہ قرآن شریف ہے، بس چند منٹ کا کام باقی ہے، پھر آپ کا کام
پورا کردوں گا۔"
اس نے لجاجت بھر لہجے میں
کہا۔
کمونسٹ غضب ناک ہو گیا۔اس
کی آنکھوں میں خُون اُتر آیا۔جھپٹامار کر قرآن شریف جلد ساز کے ہاتھ سے چھین لیا
اور چلایا:
"اس خرافات(معاذ
اللہ معاذ اللہ)کے لیے تم نے میرا کام روک رکھا ہے"۔
اور پھر قرآن شریف کو
باہر سڑک پر دے مارا۔اُف میرے خدا، میرا خون کھول اٹھا، پھر جیسے بے بسی نے میرے
ہاتھ پاؤں جکڑ لیے ۔خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔چپ چاپ اُٹھا ، قرآن شریف جا کر
اٹھایا ، اسے بار بار چوُما۔اس خیال سے دل بھر آیا کہ ہم مسلمانوں کی دُوں ہمتی
اور ضعف ایمانی یہا ں تک پہنچ چکی ہے کہ دشمن کُھلے عام کتابِ الٰہی کی توہین کرتے
ہیں اور ہم اس کی آن پر جان بھی نہیں دے سکتے۔اتنے میں وہ بدمعاش دُکان سے نکل کر
چل کھڑا ہوا۔میں نے جلد ساز کی اُجرت ادا کی اور اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔کچھ
فاصلے پر تھانہ تھا ، جونہی وہ تھانے کے قریب پہنچا ، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
اور کھینچ کر تھانے میں لے گیا۔تھانیدار کو سارا ماجرا سنایا اور اس بدبخت کی
جسارت پر احتجاج کیا۔میں نے کہا:
"اس شخص نے حکومت
کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے، خود حکومت اعلان کر چکی ہے کہ کوئی کمونسٹ، دین
کے خلاف نہ کوئی نازیبا حرکت کرے گا اور نہ کسی کو جبراً ملحد بنائے گا، اس شخص کو
اس مذموم حرکت کی سزا دی جائے"۔
تھانیدار نے میری شکایت
پر کان تک نہ دھرا ، بلکہ اُلٹا مجھی کو ڈانٹا اور کہنے لگا:
"ہمارے پاس کیا لینے
آئے ہو؟؟اپنے خدا کے پاس جاؤ جس کے نام پر تم مر جانے کا عقیدہ رکھتے ہو"۔
تھانے سے نکل کر جامع
مسجد پہنچا۔یہ مسجد آج بھی موجود ہے، اسے عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔اس زمانے میں یہ
شہر کے عین وسط میں تھی اور اپنے حجروں سمیت تقریباً 18 ایکڑ رقبے میں پھیلی ہوئی
تھی، نہایت خوبصورت مسجد تھی اور بے شمار ستونوں پر تعمیر کی گئی تھی۔مسجد کے شمال
میں بڑی سڑک تھی جس پر مسجد کی وقف دُکانیں تھیں۔مشرق میں بہت بڑا حمام تھا۔اس
مسجد میں خوقند کے امیر خود نماز پڑھایا کرتے تھے یا پھر شیخ الاسلام ان کی نیابت
کا فرض انجام دیتے۔اس آخری دور میں شیخ الاسلام تورہ خان داملا تھے۔ہفتے میں ایک
دن وعظ فرماتے۔کمونسٹوں نے ابھی تک ان پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔البتہ موقع کے منتظر
تھے اور ان کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دی تھیں۔ایک شخص کو باقاعدہ ان پر متعین
کر رکھا تھا ، جو ان کی نقل و حرکت اور ان کے پاس آنے جانے والوں پر نظر رکھتا تھا۔یہ
شخص ایک افغانی تھا۔بڑا ہی باتونی اور خوش گفتار۔دیکھنے میں بے حد خدا رسیدہ نظر
آتا۔لمبی ڈاڑھی ، پیشانی پر بڑا سا گٹا، نماز باجماعت کبھی ناغہ نہ ہوتی۔صبح کی
نماز میں سب سے پہلے آتا ، ستونوں کی آڑ میں کھڑا ہو جاتا اور دیر تک طویل قرات کے
ساتھ سنتیں پڑھتا رہتا۔اس دوران میں ہر آنے والے پر اس کی نظر رہتی۔مسجد میں افغانی
لباس پہن کر آتا اور باہر مقامی لباس میں چلتا پھرتا۔
مجھے اس شخص کی حرکتیں
اور احوال مشکوک سے محسوس ہوئے، چنانچہ میں اس کے تجسس میں لگ گیا، پتہ چلا کہ آں
جناب کو کمونسٹ پارٹی کی طرف سے تورہ خاں داملا پر مسلط کیا گیا ہے۔جنابِ والا نہ
صرف تورہ خاں داملا کے خلاف جاسوسی کرتے ہیں ، بلکہ ان کے ملاقاتیوں اور ہجرت کر
کے افغانستان جانے والوں کا سراغ بھی لگاتے ہیں۔
میں"آسپرہ گزری"
میں منتقل ہو گیا۔یہ خوقند کا ایک محلہ ہے۔اس محلے کی مسجد بڑی خوبصورت اور حجُرے
بڑے شاندار ہیں۔مجھے ایک حجرہ رہنے کو مل گیا، تاہم میں نماز بالعموم جامع مسجد ہی
میں پڑھتا۔ایک روز نماز جمعہ کے بعد کچھ لوگ تورہ خان داملا کے مدرسے میں آئے۔افغانی
گماشتہ بھی ان کے ساتھ تھا۔میں بھی ان لوگوں کے پیچھے پیچھے تورہ خان کی خدمت میں
پہنچ گیا۔تورہ خان کو جب پتہ چلا کہ میں ان کے استاذ حضرت غیاث الدین ایشاں کا
نواسا اور ہم سبق خوجہ خان کا بیٹا ہوں ، تو بڑی شفقت سے پیش آئے، میری پیشانی چومی
اور دیر تک گھر والوں کا حال احوال پوچھتے رہے ، پھر نمنگان کے بعض مشہور علماء کا
نام لے کر دریافت کیا:
"وہ آجکل کس حال میں
ہیں؟"
جب میں نے بتایا کہ ان
سب کو کمونسٹوں نے یا تو شہید کر دیا ہے یا جلا وطن ، تو محفل پر غم ناک خاموشی
طاری ہو گئی۔
میں نے شیخ سے اجازت چاہی
، تو پوچھا:
"آپ کہا ں مقیم ہیں؟"
"مدرسہ میر عالم میں
ایک حجرہ لیا ہے۔"میں نے عرض کیا۔صحیح پتہ افغانی کی وجہ سے نہیں بتایا۔مدرسہ
میر عالم اسلامی دورِ حکومت کا ایک عظیم الشان دارالعلوم تھا جس میں ہزاروں طلباء
پڑھا کرتے تھے۔اساتذہ اور طلباء کے لیے مدرسے کے ساتھ ہی ایک وسیع اقامت گاہ تھی۔آجکل
یہ مدرسہ اور اس کی اقامت گاہ سوشلسٹ مزدوروں اور مختلف شہروں سے آنے والے روسی
مسافروں کی رہائش گاہ بنی ہوئی ہے۔
No comments:
Post a Comment