Saturday, January 18, 2014

سمر قند و بخارا کی خونی سرگزشت


دیباچہ

سمر قند و بخارا کی زیرِ نظر سرگزشت ، دو شہروں کی سرگزشت نہیں ہے۔"سمر قند و بخارا" سے مُراد ترکستان کی وہ سرزمین ہے جو اسلامی تاریخ میں ماوراءالنہر کے نام سے مشہور ہے۔"سمرقند و بخارا"ملتِ اسلامیہ کی عظیم الشان تاریخ کا زریں باب ہے۔اِس خاک سے اُمت کی بڑی بڑی نامور شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے اسکی دینی ، علمی ، تہذیبی اور سیاسی تاریخ کو رنگ و آب دینے میں گراں قدر حصہ لیا۔"سمرقند و بخارا کی خُونیں سرگزشت"اسی سر زمین سے تعلق رکھتی ہے۔جب سوشلزم اِس علاقے پر مسلط ہوا ، تو اس پر کیا گزری؟زیرِ نظر کتاب اسی داستان کا ایک مختصر باب ہے۔مختصر باب اس لیے کہ یہ صرف ان واقعات پر مشتمل ہے جو ترکستانی مہاجر اعظم ہاشمی نے خود دیکھے ، سُنے یا جن سے وہ براہ راست دوچار ہوئے۔
اعظم ہاشمی اُن ہزاروں تُرک مہاجرین میں سے ایک ہیں جو تُرکی ، سعودی عرب اور مغربی یُورپ میں آباد ہیں۔ہاشمی صاحب افغانستان کی راہ سے برصغیر آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔جب پاکستان وجود میں آیا ، تو اس اسلامی ریاست میں چلے آئے ، وہ گزشتہ 36، 37 سال سے اس داستان کو سینے میں چھپائے بیٹھے تھے۔ان کے دوستوں نے بارہا کہا کہ وہ اپنی داستان قلمبند کردیں، لیکن قلب و رُوح کے زخم کھول کر دکھانے کی وہ اپنے اند ہمت نہ پاتے۔پاکستان میں سُرخ سامراج کے گماشتوں نے سوشلزم کا شور بلند کیا اور کچھ نام نہاد "مولانا" اور "مُفتی" ان کے رکابدار بن کر میدان میں آئے تو اعظم ہاشمی تڑب اُٹھے۔اُن کے زخم جیسے تازہ ہو گئے۔سمر قند و بخارا میں بھی ٹھیک وہی کھیل کھیلا گیا تھا جو آج پاکستان میں کھیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وہاں سوشلزم کے گماشتے اس طرح معاشی مساوات اور غریبوں اور مزدوروں کی غمخواری کے نعرے لگا کر میدان میں آئے اور چند نام نہاد "مُلاؤں" اور مُفتیوں نے اُن کے رکابداروں کا کردار ادا کیا۔تُرکستان کےمسلمان اُن کے اس کردار سے دھوکا کھا گئے۔سوشلزم کو وہ محض ایک معاشی نظام کی حیثیت سے دیکھنے لگے ، لیکن جب یہ عفریت پوری طرح اُن پر مسلط ہو گیا ، تو وہ اُن کے دین ، تہذیب و روایات ، ثقافت و تمدن اور آزادی کو نگل گیا۔
اعظم ہاشمی نے جب دیکھا کہ پاکستان کو بھی سمر قند و بخارا بنانے کی سازش ہو رہی ہے تو انہوں نے پاکستان کے مسلمانوں کے سامنے سوشلزم کے حقیقی خدوخال کھول کر رکھ دینے کا فیصلہ کر لیا۔چنانچہ انہوں نے اپنی طویل و دردناک داستان قلمبند کی۔راقم السطور نے اس کو ازسرِ نو مرتب کر کے اپنے الفاظ میں لکھا۔
اس داستان کے مخاطب یُوں تو وہ نام نہاد مولانا اور مفتی بھی ہیں جو سوشلزم کے گماشتوں کے ہاتھوں میں دانستہ یا نادانستہ کھیل رہے ہیں۔اگر اُن کے دل میں رائی برابر بھی ایمان موجود ہے ، تو خُدارا سوچیں کہ وہ کیسا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں اور کِن لوگوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔تاہم اس داستان کے اصل مخاطب پاکستان کے مسلمان عوام ہیں جنہوں نے اپنے دین ، اپنی تہذیب ، اپنی روایات کو ہندوؤں کے چُنگل سے بچانے اور اسلام کے سایے میں زندگی بسر کرنے کے لیے جنگ لڑی اور آگ اور خُون کے وسیع اور ہولناک سمندر سے گزر کر پاکستان کے ساحل ِ مُراد پر پہنچے۔یہ خُونیں سرگزشت انہی کے لیے لکھی گئی ہے تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں، پاکستان کو سمرقند و بخارا بنانے کی تگ و دو میں جو لوگ مصروف ہیں ، اُن کے نعروں اور شرعی وضع قطع سے دھوکا نہ کھائیں اور کُفر و الحاد کے ان علمبرداروں کےخلاف اُسی جوش و جذبے کے ساتھ بنیانِ مرصوص بن کر کھڑے ہو جائیں جس جذبے کے ساتھ وہ ہندوؤں کے عزائم کے خلاف کھڑے ہوئے تھے۔اُس وقت جو خطرہ مسلمانانِ ہند کو ہندوؤں سے تھا آج وہی خطرہ پاکستان کی اسلامی مملکت کو سوشلزم کے گماشتوں اور اُن کے نام نہاد و شرعی رکابداروں سے ہے۔
آباد شاہ پوری

Friday, January 17, 2014

سمر قند و بخارا کی خونیں سرگزشت


قسط نمبر 1
وہ رات مجھے مرتے دم تک نہ بھولے گی۔38 برس گزر چکے ہیں ، لیکن آج بھی اُس رات کی ایک ایک لمحہ میرے ذہن کی تختی پر نقش ہے۔شب و روز کی ہزاروں گردشوں کے باوجود اُس رات کی یادوں کی چمک دمک میں کوئی کمی نہیں آئی۔بعٖض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے امی جان احاطےکی دیوار کے پاس کھڑی مجھے رخصت کر رہی ہیں اور فرما رہی ہیں:"بیٹے ، اللہ تمہارا حافظ و نگراں ہو ، میری نصیحتوں کو مت بُھولنا ، ورنہ میں تم سے خوش نہ ہوں گی"۔
یہ 1931ء کا ذکر ہے۔آخر فروری یا شروع مارچ کی کوئی تاریخ تھی، میں اپنے گھر میں کھلاوت(تُرکی پلنگ)پر پڑا سو رہا تھا کہ امی جان نے مجھے آہستہ سے جھنجھوڑ کر جگایا۔میں آنکھیں مَلتا ہوا اُٹھ بیٹھا۔فوراً ہی سارا معاملہ میری سمجھ میں آگیا۔وہ گھڑی آپہنچی تھی جس کے لیے ہم ماں بیٹا کئی دنوں سے صلاح مشورہ کر رہے تھے۔"بیٹا ، اٹھو وضو کرو"۔امی جان نے کہا۔یہ کہہ کر وہ مُڑیں اور کوزے میں پانی بھرنے لگیں۔میں نے طہارت سے فارغ ہو کر وضو کیا، پھر خود امی جان نے بھی وضو کیا۔اب ہم دونوں ماں بیٹا بارگاہِ ایزدی میں جُھک گئے، دوگانہ اداکیا ، امی جان نے اوراد و وظائف پڑھ کر مجھ پر پھونکا ، پھر باورچی خانے میں چلی گئیں۔کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد دستر خوان اُٹھائے تشریف لائیں۔ایک ہاتھ میں بٹیر کے سیخ کباب تھے۔ایک کباب اپنے ہاتھ سے کھلایا۔کھانا کھا چکا تو کہنے لگیں:
"میرے جگر گوشے ، اُٹھو اور اپنے معصوم بھائی بہنوں کا آخری زندہ دیدار کر لو"۔
میں بڑھ کر اُن کی چارپائی کے قریب پہنچا۔کم سِن معصوم فرشتے دُنیا جہاں سے بے خبر پڑے سو رہے تھے۔معصومیت کی لو اُن کے چہروں پر دمک رہی تھی۔میں نے باری باری ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور اُن کے حق میں اللہ تعالیٰ سے خیروعافیت کی دعا مانگی۔وہ وقت میرے لیے بے حد صبر آزما تھا۔محبت اور شفقت کے سوتے میرے دل کی گہرائیوں سے اُبلنے لگے۔"اب میں اپنے بھائی بہنوں کو شاید کبھی نہ دیکھ سکوں گا"۔میں نے سوچا۔معاً میری آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے جنہیں میں نے پلکوں ہی پلکوں میں خُشک کرنے کی کوشش کی۔امی جان تھیں تو 65 برس کی ، لیکن جوانوں سے زیادہ باہمت تھیں۔کچھ دیر تک دُم سادھے میری طرف دیکھتی رہیں، پھر بولیں:"آؤبیٹا"۔۔۔۔۔اُن کی آواز میں ہلکا سا ارتعاش تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا وہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔انہوں نے ایک چھوٹا سا تکیہ نُما بستر اُٹھایا اور چل پڑیں۔میں ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔کمرے سے نکل کر ہم صحن میں پہنچے ، صحن سے باغیچے کا رُخ کیا، باغیچے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے۔اب ہم کُھلے آسمان کے نیچے درختوں اور پودوں کے درمیان کھڑے تھے۔امی جان نے میری پیشانی چُومی اور فرمایا:"بیٹے ، تم میرے بڑھاپے کا سہارا اور اُمیدوں کا مرکز ہو ، مگر جیسا کہ دیکھ رہے ہو ، تم وطن عزیز میں رہ کر ایک مسلمان کی حیثیت میں میری خدمت نہیں کر سکتے، چنانچہ میں تمہیں دین و ایمان اور وطن ِ عزیز کی خاطر کسی آزاد ملک میں چلے جانے کی اجازت دیتی ہوں۔البتہ ایک شرط ہے ، وہ یہ کہ جہاں تک ممکن ہو ، ترکستان کے مسلمانوں کی بے بسی اور دین کی بے حُرمتی کی خبی تمام مسلمانوں اور آزاد قوموں تک پہنچا دو۔بیٹے، میں نے وضو کیے بغیر تمہیں کبھی دودھ نہیں پلایا۔اگر تم نے اس مقصد کو فراموش کر دیا ، تو میں کبھی راضی نہ ہو گی۔انسان کا مجدد شرف یہ ہے کہ اپنے قول و قرار کا پابند رہے"۔
پھر امی جان نے مجھے وہ چھوٹا سا تکیہ نما بستر دیا۔کوئی دو سیر وزن ہوگا، کہنے لگیں:
"اس کی حفاظت کرنا، بالخصوص اس کے اند جو قرآن کریم ہے، اُسے حرزِ جاں بنا کر رکھنا۔منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو اسکی موجود جلد اُتار کر نئی بنوا لینا۔پُرانے گتے کو اپنے ہاتھ سے توڑنا اور پھر اسے جلا ڈالنا اور راکھ کسی دریا یا کنوئیں میں ڈال دینا"۔
مزید تاکید کے طور پر فرمایا:
"دیکھو، تمہیں کوئی چیز اپنے پیدائشی وطن سے غافل نہ کرے، ہمدردوں کی ہمدردی فراموش نہ کرنا۔جو تمہارے خدا کا دشمن اور ملک کا غاصب ہے وہ کبھی تمہارا دوست اورخیر خواہ نہیں ہو سکتا۔بزدل انسان اپنی منزل مقصود سے محروم رہتا ہے۔موت ایک بار آئے گی۔ایمان سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔مرد اپنےقول سے نہیں پھرتے۔جو شخص ان تین باتوں کو نظر انداز کر دیتا ہے اس کا وجود کوڑی کا نہیں رہتا"۔
امی جان دیر تک پندو نصحیت کرتی رہیں۔کوئی تین سوا تین کا عمل ہوگا۔پچھلے پہر کے سناٹے میں کبھی کبھار کسی مُرغ کی بانگ سنائی دیتی۔چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، درختوں کے سائے پھیلتے جا رہے تھے۔باغیچے سے گزر کر ہم احاطے کی دیوار کے نیچے پہنچے۔امی جان نے ہاتھ اُٹھا کر دیا کی، پھر میرے سر پر دستِ شفقت پھیرا اور کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا:
"جاؤ بیٹا ، اللہ تمہارا ساتھی اور مدد گار ہو"۔
میں نے ایک آخری نظر اپنے باغ اور گھر پر ڈالی۔اس باغ میں کتنے ہی پودے میں نے اپنے ہاتھ سے لگائے تھے اور انہیں خُون اور پسینے سے سینچا تھا۔اس گھر میں مَیں  پیدا ہوا ، پلا بڑھا اور پروان چڑھا ، وہ گھر ہماری صدیوں کی خاندانی روایات کا امین تھا، جس کے ایک ایک پتھر سے ماضی کی داستانیں اور میرے اپنے بچپن کی یادیں وابستہ تھیں۔میں نے ٹھنڈی سانس بھری۔امی جان کو سلام عرض کیا، دیوار پر چڑھا اور باہر کُود گیا۔ہمارے باغیچے اور بڑی سڑک کے درمیان قبرستان تھا۔قبرستان میں ہُو کا عالم تھا۔شکستہ قبریں اور اُنچے نیچے مٹی کے ڈھیر دیکھ کر ہول سا طاری ہو گیا، تاہم دل کڑا کر کے قبرستان میں داخل ہوا۔ہاتھ میں امی جان کا دیا ہوا عطیہ تھا۔ابی چند قدم ہی چلا تھا کہ باغیچے میں سے ایک لمبی "ہُو" کی آواز آئی۔فوراً پلٹا اور باغ میں آیا۔امی جان دیوار کے نیچے بے ہوش پڑی تھیں۔مُنہ پر پانی چھڑکا تو آنکھیں کھول دین۔مجھے اپنے پاس دیکھ کر کہا:
"تم واپس کیوں آگئے ؟اپنی منزل کھوٹی نہ کرو ، ہمارا نگہبان وہ قادر و توانا ہے جس کے وجود پر یقین ہر ذی علم کا سرمائیہ زندگی ہے"۔

میں باغ سے نکلا اور نامعلوم منزل کی طرف چل پڑا۔ 

Thursday, January 16, 2014

سمرقند و بخارا کی خونیں سرگزشت

قسط نمبر2

میں اپنے گھر سے رات کے وقت چوری چُھپے کیوں نکلا؟کہاں کہاں کی خاک چھانی اور کن مصائب سے دوچار ہوا؟ان سوالات کا جواب دینے سے پہلے مجھے ماضی کی طرف لوٹنا پڑے گا۔
فرغانہ (جوآجکل ازبکستان کہلاتا ہے)کے ضلع اندجان میں ایک چھوٹا سا قصبہ"قائقی"ہے۔میں اسی قصبے میں 1915ء میں پیدا ہوا۔میرے والد کا نام خوجہ خان داملا ہے۔(داملا تُرکی میں مولانا کو کہتے ہیں)۔دادا کانام الشیخ عزت اللہ اور نانا کا غیاث الدین ایشان نمنگانی ہے۔یہ سب حضرات اپنے وقت کے جید عالم تھے۔نانا جان پُورے تُرکستان میں استادالعالم کہلاتے تھے۔ان کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔والد کے سلسلئہ نسب میں چار پُشت تک علمائے دین اور سلسلئہ عالیہ نقشبندیہ کے خلفاء ملتے ہیں۔والدہ کی طرف سے میرا شجرہ نسب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔میرے ننھیال کے بزرگ قتیبہ بن مسلم کے ہمراہ تبلیغ دین کے لیے تُرکستان آئے تھے اور پھر یہیں کے ہورہے۔اُسوقت سے گھرانے میں بڑے بڑے شیوخ اور علماء پیدا ہوئےجن کے مزارمیرے زمانہ ہجرت تک موجود تھے۔
جب روسی زاروں نے ترکستان پر جارحانہ حملہ کیا ، تو میرے نانا غیاث الدین ایشان اور والدہ کے ماموں باطور تورہ نمنگانی اس جارحیت کی مزاحمت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل تھے، چنانچہ اس جُرم میں عمر بھر نظر بند رہے اور نظر بندی کی حالت میں انتقال ہوا۔میرے تین ماموں عبدالحمید خان تورہ ، عبدالرشید خان تورہ اور محی الدین خان تورہ بڑے متقی اور صاحب زہد و ورع بزرگ اور مرجع خاص وعالم تھے۔واضح رہے کہ "خان" کا لفظ ترکستان میں یا تو سیدوں کے لیے استعمال ہوتا ہے یا بادشاہوں کے لیے۔ہمارا خاندان بہت بڑا تھا۔ہم گیارہ بہن بھائی تھے۔پانچ بھائی اور بہنیں مجھ سے بڑی تھیں۔ہمارے خاندان کی خواتین تک عربی اورفارسی کی عالمہ تھیں۔میری والدہ اور ان کی چار بہنیں بڑی جید عالمہ تھیں۔
ہمارا ذریعہ معاش زراعت اور تجارت تھا۔کوئی سوا پانچ مربع زمین تھی۔ڈھائی مربع زمین بارانی تھی اور باقی نہری۔اس زمین میں باغات اور جنگلات بھی تھے اور کاشت بھی ہوتی تھی، چنانچہ ہم لوگ خوشحال زندگی بسر کرتے تھے۔
ترکستان کے زرعی نظام کے بارے میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔زمین کے مالک بالعموم خود کسان ہوتے تھے۔روس کی طرح زمین پر کمیرے کام نہیں کرتے تھے۔مزارعت کارواج بھی تھا، لیکن مزرعین کی بالکل حق تلفی نہ ہوتی تھی۔انہیں اپنی محنت کا صلہ پُوراپورا ملتا تھا۔ایسے دہقان جن کی اپنی زمین نہیں تھی بہت کم تھے۔ہندو پاکستان کی طرح بڑے بڑے زمیندار اور جاگیر دار نہ تھے۔
میرے بچپن کا دور انقلابی دور تھا۔ہمارے خاندان کے مرد تقریباً سب کے سب شہادت پا چکے تھے۔امی جان عربی اور فارسی کی عالمہ تھیں، انہی کی رہنمائی میں تعلیم کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے قصبے ہی میں حاصل کی ثانوی تعلیم نہنگان ، خوقند ، سمرقند اور شہر سبز میں خفیہ طور پر جاری رکھی۔خُفیہ اس لیے کہ سوشلسٹوں نے ترکستان پر قبضہ کرنے کے بعد دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی تھی۔دین کی تبلیغ و اشاعت تو بہت بڑا جرم تھا۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے معنی یہ تھے کہ آپ خود بڑھ کر مصائب و آلام کو دعوت دے رہے ہیں۔
4
انقلاب روس سے پہلے ہمارے یہاں عصری اور جدید تعلیم برائے نام تھی۔ایک تو ذریعہ تعلیم روسی زبان تھا، دوسرے تعلیمی اداروں کے سربراہی انتظام کیتھولک پادریوں کے ہاتھ میں تھا جو نہایت متعصب اور تنگ نظر تھے۔استاد بھی بالعموم یہی لوگ ہوتے تھے۔ان کا مشن تعلیم پھیلانے سے زیادہ مسلمانوں کو عیسائی بنانا تھا۔ان تعلیمی اداروں کے فارغ اتحصیل لوگ بے دن بھی ہوتے اور روسی سامراج کے حامی بھی، چنانچہ عام مسلمانوں نے ان اداروں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔عوام کی نظر میں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔
جہاں تک دینی تعلیم کا تعلق تھا ، ترکستان میں ہزاروں مدارس تھے۔تُرکی زبان ذریعہ تعلیم تھی۔کوئی شہر اور قصبہ درسگاہ سے خالی نہ تھا۔مخیر حضرات نے لاتعداد مدارس کے لیے زمینیں وقف کر رکھی تھیں۔طلبہ کو تعلیم مُفت ملتی تھی، لیکن وظائف یا کتابیں مستعاردینے کا رواج نہ تھا۔طالب علم کو بارہ یا سولہ برس تک کے تعلیمی مصارف خود برداشت کرنا پڑتے تھے۔دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات یاتو کاروبار کرتے تھے یا روس کے مقبوضہ علاقوں اور ماتحت ریاستوں میں فتویٰ نویسی اور مسلمانوں کے شخصی قانون سے متعلق عدالتوں میں کسی منصب پر فائز ہو جاتے۔
ان درس گاہوں کی اپنی دنیا تھی۔سیاست تو گویا شجرممنوعہ تھی۔یہ میدان علمانے لادین قوتوں کے لیے خالی چھوڑ رکھا تھا۔ترکستانی معاشرہ عالم اسلام سے بالکل بے خبر اور بڑی حد تک کٹا ہو تھا۔رفاہیت اور خوشحالی کی وجہ سے پورا معاشرہ خوابِ خرگوش میں مبتلا تھا۔ہر شخص شاعر اور ہر فرد ہوس کار تھا۔سال میں چھ مہینے سیروتفریح میں کٹتے۔شکار کھیلنا ، نام و نمود کی خاطر مال و دولت لُٹانا ہمارا طرہ افتخار اور امتیازی نشان بن چکا تھا۔علما کی اکثریت تنگ نظر ، جمود کا شکار اور فروعات میں اُلجھی ہوئی تھی۔تصوف کا دور دورہ تھا۔مشائخ اور صوفیا ، معاشرےاور قوم کے عملی مسائل سے بے نیاز خانقاہوں میں گُم تھے۔مراقبہ ، کشف ِ قبور، عزلت گزینی، ریاضت ، چلہ کشی ، وحدت الوجود پر بحث مباحثے اور نفس کشی ان کا اپنا شغل بھی تھا اور اپنے مُریدوں کو بھی اسی کی تلقین کرتے تھے۔ان کے اس جمود پر کوئی تنقید کرتا ، تو جواب ملتا:"ہم پر کون سا دشمن حملہ آور ہے؟؟اگر کبھی ایسا وقت آبھی گیا، تو ہم جہاد کے لیے میدان میں نکل آئیں گے، بلکہ خانقاہی ترتیب کا حقیقی مقصود جہاد کی تیاری ہی ہے۔
یہ تھے تُرکستان کے مسلمان معاشرے کے شب و روز جب 1917ء میں رُوس میں انقلاب آیا۔زار شاہی کا تختہ اُلٹنے کے بعد جمہوریت پسند نیشنلسٹ روسیوں نے الیگزنڈر کرنسکی کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کر لی۔ادھر تُرکستان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔خوقند اس نو آزاد ریاست کا دارالحکومت تھا۔کرنسکی حکومت نے تُرکستان کی اس آزاد مملکت کو تسلیم کر لیا، لیکن اُس کے پاس ایک دستہ فوج بھی نہ تھی۔ملیشیا (نیشنل گارڈ)کے نام سے پولیس کے دستے تھے، تاہم آزاد حکومت کے رہنماؤں نے آزادی کو مستحکم کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا۔علما نے بھی ان کے ساتھ پُورا پُورا تعاون کیا۔دستور ساز مجلس وجود میں آئی اور دستور سازی کا کام پوری تیزی سے شروع ہو گیا۔اس اثنا میں کمونسٹوں نے لینن کی قیادت میں کرنسکی حکومت کا تختہ اُلٹ کر رُوس پر قبضہ کر لیا۔فروری 1918ء میں سوشلسٹ رُوس تُرکستان پر چڑھ دوڑا اور اس کی چند روزہ آزادی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔دسمبر 1921ء میں اس نے بخارا اور جمہوریہ خیوا پر اپنے سامراجی چُنگل گاڑ دیے۔
کمونسٹوں نے تُرکستان پر مسلط ہوتے ہی زمینیں ، باغات ، دُکانیں اور کار گاہیں غضب کر لیں۔کسان ، تاجر ، علما اور مذہت سے وابستہ افراد خواہ وہ پڑھے لکھے سفید پوش تھے یا اَن پڑھ مزدور اور کاشت کار، سب کو حقوق شہریت سے محروم کر دیا گیا۔نماز ، روزہ جُرم قرار پائے۔حج پر پابندی لگا دی اور مسجدیں بند کر دیں۔
مسجدیں بند کرنے کے لیے مکارانہ ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔سب سے پہلے مسجدوں اور مدرسوں کے اوقات ضبط کر لیے گئے۔اس طرح مسجدیں اور دینی درسگاہیں اپنے وسائلِ زندگی سے محروم ہو گئیں۔پھر مسجدوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے۔جب لوگوں نے چندہ جمع کرکے ٹیکس ادا کیا ، تو چندہ دینے والوں پردفینہ ٹیکس لگا دیا گیا۔علانیہ کہا جانے لگا کہ جو لوگ مسجدوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ، انہوں نے خزانے چُھپا رکھے ہیں، ہم یہ خزانے ان سے اُگلوائیں گے۔اب مسجد ٹیکس ادا کرنے کی جرات کون کرتا؟چنانچہ جب مقررہ میعاد میں ٹیکس ادا نہ ہوتا ، تو ایک ہفتے بعدمسجد پر جرمانہ عائد کر دیا جاتا،جو وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا۔ادھر جو لوگ نماز پڑھتے ، ان پر "نمازی ٹیکس"عائد کر دیا گیا۔نتیجہ یہ کہ لوگ گھروں میں نماز پڑھنے لگے اور مسجدیں ویران اور بے آباد ہوگئیں۔جب کوئی مسجد اس طرح ویران ہو جاتی، تو ایک روز کیمونسٹ اس میں جمع ہوتے اور ایک قرار داد منظور کرتے کہ یہ مسجد بے کار اور ویران پڑی ہے، اس میں کوئی شخص نماز پڑھنے نہیں آتا، اس لیے حکومت کو چاہیے وہ اس کو کسی رفاہی کام میں استعمال کرے۔دوسرے روز قرارداد سرکاری گزٹ میں شائع ہوجاتی اور کمونسٹ مسجد پر قبضہ کرکے یا تواسے شہید کر دیتے یا اصطبل ، کلب اور رقص گھر وغیرہ میں بدل دیتے۔
کمونسٹ پارٹی کی شاخیں ایک ایک محلے میں کھول دی گئی تھیں۔یہ شاخیں دین کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتیں اور اُسے بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے لیے منصوبے بناتیں۔روزی کمانے کے لیے لائسنس حاصل کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔لائسنس کے بغیر کسی شخص کو کھیتی باڑی ، صنعت و صرفت ، تجارت حتٰی کہ محنت مزدوری کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔مذہب سے وابستگی اور ملی اورقومی روایات سے محبت رکھنے والوں کے لیے لائسنس کا حصول تقریباً ناممکن ہوگیا۔اس کے لیے دین و ایمان سے برات کا اعلان کرنا پڑتا۔ادھر بدمعاشوں اور قاتلوں کو کھلی چُھٹی دے دی گئی۔دیندار اور نماز روزے کے پابند مسلمانوں پر حملے ہونے لگے ، لیکن کبھی کوئی قاتل گرفتار نہ ہوا۔اسی طرح ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔1927ء کے بعد اس قتل و خونریزی اور اسلام دشمنی میں اور اضافہ ہوگیا۔کمونسٹ ، اسلام پر بہتان طرازی کرتے، قرآن و حدیث ، دین اور دینی پیشواؤں کے مضحکہ خیز کارٹون بنا کر سڑکوں پر اور مسجدوں میں چسپاں کرتے، بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پرکیچڑ اُچھالتے ، تھیٹروں اور سنیماؤں میں ہتک آمیز ڈرامے کھیلتے ، ان کارٹونوں وغیرہ سے نظر بچانے کو کوشش کرنا جُرم تھا۔کمونسٹوں کی چیرہ دستیوں اور اسلام دشمنی کی انتہا یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضی پُتلا بنا کر چوراہوں میں رکھ دیتے اور جو شخص بھی ادھر سے گزرتا ، اُس کو پکڑ لیتے اور بڑی دریدہ دہنی کے ساتھ اس پُتلے کی طرف متوجہ کرتے۔ان حالات میں ان لوگوں کے لیے جو مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے تھے، اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ ہجرت کر جائیں۔
ایک دن کا ذکر ہے ، ہمارے قصبے کی بڑی مسجد میں کمونسٹوں نے ایک جلسہ منعقد کیا۔پورے قصبے میں ڈونڈی پٹوائی کہ ہر شخص کو حکم دیا جاتا ہے وہ اس جلسے میں شریک ہو، غیر حاضر رہنے والے کو سزا دی جائے گی۔لوگ مارے باندھے جمع ہوگئے۔مسجد میں تِل دھرنے کو جگہ نہ رہی۔جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔سب سے پہلے ناظم جلسہ نے اعلان کیا کہ روحانی لوگ مسجد سے چلے جائیں۔واضح رہے کہ جو لوگ دین و مذہب سے عقیدت رکھتے ہیں ، اُنہیں ترکستان میں روحانی کہا جاتا ہے۔اس اعلان پر بہت سے لوگ اُٹھ کر جلے گئے۔اب زیادہ تر آوارہ گرو ، بدمعاش اور کمزور ایمان والے مرد یا ناسمجھ بچے باقی رہ گئے ۔کمونسٹوں نے جانے والوں کا نام لکھ لیا۔تھوڑی دیر تک خاموشی طاری رہی، پھر زور زور سے گھنٹے بجائے گئے۔جی ہاں مسجد میں گھنٹے۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح گرجوں میں بجائے جاتے ہیں۔ایک تو ماحول پہلے ہی پُر ہول تھا، گھنٹوں کی آواز سے ہیبت اور بڑھ گئی، پھر ایک شخص سٹیج پر آیا۔بتایا گیا کہ یہ صاحب اسلامی فلسفی ہیں۔وہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا اور مُنہ سے جھاگ اڑاتا رہا۔قلم میں طاقت نہیں کہ اس ہرزہ سرائی کو من و عن بیان کر سکے۔مختصر الفاظ میں اس نے کہا کہ مذہب بالخصوص اسلام نے خُدا کا تصور جو دلوں پر بٹھایا ہے اس کا مقصد عوام کو لُوٹنا ہے۔یہ تصور سرمایہ داروں اور مُلاؤں نے اپنی شکم پروری کے لیے ایجا د کیا ہے۔اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم یومِ آخرت ، حشر و نشر ، جنت دوزخ ، فرشتے اور جنات وغیرہ تمام عقائد ڈھکوسلے ہیں اور رُوحانیوں کا بچھایا ہوا دام تزویر ، کمونسٹ پارٹی ان تصورات کا قلع قمع کرکے عوام اور محنت کشوں کو دامِ تزویر سے چُھٹکارا دلانے کا عزم صمیم رکھتی ہے۔
مقرر جوشِ تقریر میں چلایا:
"کیا کوئی سوال کرنا چاہتا ہے؟"
اس دریدہ دہن کی خرافات سُن کر میرا خون کھول رہا تھا۔میں تڑب کر اُٹھا اور کمونسٹوں کے تیوزوں کی پروا نہ کرتے ہوئے بولا:"جو لوگ تمہاری اس خرافات کا جواب دے سکتے تھے، اُنہیں تو تم نے نکال دیا، کیا اب ان کی روح سے جواب مظلوب ہے؟"جوش کے عالم میں جانے کیا کچھ کہہ گیا۔بس اتنا احساس ہے کہ مسجد میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور اس سناٹے میں میری آواز گونج رہی تھی۔اچانک شور بلند ہو:"پکڑو پکڑو۔۔۔۔۔۔"اور پھر کمونسٹ چاروں طرف سے مجھ پر پل پڑے اور لاتیں اور مُکے برسانے لگے۔میرا کوٹ پھٹ گیا، کپڑے تارتار ہوگئے ، پھر پولیس نے دھکے دے کر اور ڈنڈے مار کر باہر نکال دیا۔گھر پہنچا تو امی جان اور چھوٹے بہن بھائی میری حالت دیکھ کر پریشان ہوئے۔امی جان کی پریشانی تو دیکھی نہ جاتی تھی۔ان کی پریشانی بجا تھی۔دین اور اہل دین کا جو حشر ہو رہا تھا، وہ ان کے سامنےتھا۔خود ہمارا اپنا خاندان بھی محفوظ نہ رہا تھا۔سوشلسٹ پولیس میرے چچا ، دو ماموں ، ایک بہنوئی ، دو خالہ زاد بھائیوں اور متعدد عزیزوں کو دینی پیشوا ہونے کے جُرم میں ان کے گھروں سے پکڑ کر لے گئی تھی اور پھر آج تک پتہ نہ چل سکا تھا انہیں زمین کھا گئی ہے یا آسمان اُچک لے گیا ہے۔امی جان نے پوچھا:
"بیٹے ، ماں تم پر نثار ، یہ تمہیں کس نے مارا ہے؟"میں نے ہر چند ٹالنے کی کوشش کی ، مگر امی جان کا اصرار بڑھتا گیا۔بار بار کے اصرار سے مجبورہو کر میں نے ساری داستان سنا دی۔امی جان سن رہی تھیں اور رو  رہی تھیں۔سارا ماجرا سُن کر فرمایا:"نور بصر، یہ لوگ جاہل اور بے ددین ہیں اور انہی کا راج ہے،ان بے ہودہ لوگوں کو علم اور حقیقت کی ہوا تک نہیں لگی۔ان کی خرافات دین حق پر محض بہتان ہیں۔اچھا ، مجھے اب تمہارے متعلق کچھ سوچنا پڑے گا۔لو اب کھانا کھا لو۔
دل اس قدر بے چین اور مضطرب تھا کہ کھانے کو جی نہ چاہتا تھا۔امی جان نے اپنے ہاتھ سے زبردستی چند نوالے کھلائے۔رات خاصی گزر چکی تھی۔امی جان اور دو بہنوں نے میرے پیچھے نمازِ عشا پڑھی، پھر امی مجھے اپنے کمر ہ خاص میں لے گئیں ، ایک کتاب دی اور فرمایا:"لو بیٹا ، اس کا مطالعہ کرو"۔
میں نے کتاب کھول کر دیکھی ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جلد تھی اور قازان میں چھپی تھی۔امی جان تو چلی گئیں۔میں نے جو مطالعہ شروع کیا، تو ساری رات اسی میں کٹ گئی۔صبح صادق سے کچھ پہلے امی جان کمرے میں آئیں ، میرے ہاتھ سے کتاب لے کر رکھ دی اور فرمایا:
"جانِ مادر ، اب تھوڑی دیر آرام کر لو"۔
کوئی گھنٹہ بھر سویا ہو ں گا کہ امی دوبارہ تشریف لائیں اور نمازِ فجر کے لیے جگایا۔صبح کی نماز بھی ہم نے باجماعت ادا کی۔دن چڑھے باغبانی میں لگ گئے۔
دونوں چھوٹے بھائی مدرسے چلے گئے تھے۔دوپہر کے بعد گھر آئے ، تو امی جان سے کچھ کہا۔امی بولیں، یہ دشمنانِ دین ہیں اور دشمن ایسے ہی بک بک کرتے ہیں۔
پتہ چلا کہ مدرسے میں ڈرامہ ہو تھا جس میں نماز ، روزے اور دوسرے سلامی شعائر پر حملے کیے گئے اور اُن کا مذاق اڑایا گیا۔دوسرے دن بچے اسکول گئے ، تو ان سے والدین کے تاثرات پوچھے گئے۔پندرہ دن بعد امی جان کو اس بنیاد پر حقوق شہریت سے محروم کر دیا گیا۔کہ وہ روحانیہ اور عالمہ دین ہیں۔امی نے اس موقع پر فرمایا:
"اب ہمارا ایمان آزمایا جائے گا۔ان لوگوں سے یہی توقع تھی۔یہ بدمعاش اس سر زمین میں دینی شعور و احساس رکھنے والے کسی انسان کو زندہ نہ چھوڑیں گے"۔
 پھر امی جان مجھے الگ ایک طرف لے گئیں اور فرمایا:"بیٹے ، کچھ خبر نہیں دشمن کب مجھے شہید یا جلا وطن کردے۔یہاں مسلمان بن کر رہنا ممکن نہیں رہا، میں تمہیں ہجرت کی اجازت دیتی ہوں۔کسی اور ملک میں چلے جاؤ تاکہ ایک مسلمان کی زندگی بسر کر سکو"۔

اب ہمارا وقت زیادہ تر چپکے چپکے صلاح مشورے میں گزرتا۔مجھے اپنے والد ، دادا اور نانا سے نہایت گراں بہا اور نایاب ذخیرہ کُتب ملا تھا۔امی جان کے مشورے سے والد مرحوم کے مہمان خانے کی تقریباً چھ فٹ موٹی دیوار میں شگاف کیا گیا اور تمام کتابیں اس میں رکھ کر دیوار چُن دی۔ہمیں یقین تھا سوشلسٹ حکومت ضرور اس عمارت پر قبضہ کر لے گی اور اس کو منہدم کرنے کے بجائے کسی سرکاری استعمال میں لے ائے گی۔امی جان کو شہری حقوق سے محروم کرنے کے ٹھیک 23 دن بعد میں ہجرت کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔

Wednesday, January 15, 2014

سمرقند و بخارا کی خونیں سرگزشت

قسط نمبر3

مسلسل کئی گھنٹے چلنے کے بعد اگلے روز میں خضر آباد کے قریب پہنچا۔ خضر آباد ہمارے قصبے قائقی سے کوئی 24میل کے فاصلے پر واقع ہے۔خاصا بڑا گاؤں ہے۔ریلوے لائن پاس سے گزرتی ہے۔گاؤں تک پہنچنے کے لیے دریائے سیحوں عبور کرنا پڑتا ہے۔قریب پہنچا تو دیکھا کہ رُوسی فوج نے گاؤں کو گھیر رکھا ہے۔کوئی ہزار ڈیڑھ ہزار فوجی ہوں گے۔بعد ازاں پتہ چلا کہ خضر آباد میں بھی کمونسٹوں نے اسلام اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی اور دریدہ دہنی کی تھی، چنانچہ عوام مشتعل ہو کر ان کی تکا بوٹی کر دی، ریلوے لائن اُکھاڑ ڈالی اور بغاوت کا پرچم بلند کر دیا۔رُوسی فوج انہیں کچلنے آئی تھی۔فوج کا پہرا بڑا سخت تھا۔روسی جگہ جگہ رائفلیں تانے کھڑے تھے اور کوئی شخص ان سے بچ کر نہ جا سکتا تھا۔میں ایک انتہائی پریشان کُن مشکل میں پڑ گیا۔یہاں سے واپس جا سکتا تھا نہ بھاگ سکتا تھا ، نہ چھُپنے ہی کی کوئی جگہ تھی۔اس روز میں پہلی بار موت کو اپنے سر پر کھڑے دیکھا۔فوجیوں کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے ٹھٹکا اور پھر زبان پر ایمانِ مجمل اور مفصل بے اختیار جاری ہو گئے اور ایک عجیب عالمِ خود فراموشی طاری ہو گیا۔قدم اٹھائے اور چل پڑا۔ہوش و حواس ٹھکانے ہوئے ، تو دیکھا فوجی بہت دُور پیچھے رہ گئے ہیں۔فوالواقع یہ ایک حیران کن تجربہ تھا۔میں آج تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جس راستے پر قدم قدم پر روسی فوج کے سپاہی پہرا دے رہے تھے وہاں ان کی نگاہوں سے بچ کر کیسے نکل آیا۔
اسی شام "اوئچی "پہنچا ، یہاں والد مرحوم کے ایک ہم سبق عالم رہتے تھے۔علم و عمل کے لحاظ سے بڑی زبردست شخصیت کے مالک تھے۔سوشلزم کے چُنگل اس شہر پر بھی دراز ہو چکے تھے اور ان کا پہلا شکار والدِ مرحوم کے یہی دوست ہوئے تھے۔لوگوں نے بتایا کہ اس مردِ حق پرست کو گزشتہ رات کمونسٹوں نے شہید کر دیا۔اہل محلہ نے مجھے نمنگان جانے والے راستے پر ڈال دیا۔اگلے روز میں نمنگان پہنچ گیا۔یہ میرا ننہیالی شہر ہے۔یہاں میری والدہ کی جائداد اور حویلی تھی، جو انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔نمنگان کے حالات نسبتاً بہتر تھے۔چند روز یہاں رہا اور پھر ریل گاڑی کے ذریعے خوقند پہنچا۔
خوقند ، تُرکستان کا تاریخی شہر ہے۔خاصا وسیع اور بڑا۔زار شاہی کے خاتمے پر ترکستان میں جو چند روزہ آزاد حکومت قائم ہوئی ، اُس کا صدر مقام یہی تھا۔قائقی سے 152میل کے فاصلے پر ہے۔خوقند میں کمونسٹوں کے مظالم پُورے عروج پر تھے۔ان سے تنگ آکر مسلمانوں نے ایک خُفیہ تحریک شروع کر دی تھی۔جب بھی کمونسٹ، اسلام اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دریدہ دہنی کرتے یا علما کو اذیت دیتے، تحریک کے رضا کار رات کے وقت اُنہیں قتل کر ڈالتے اور ان کا سر ایک بند گاڑی میں رکھ کر پولیس چوکی پر پہنچا دیتے۔ساتھ ہی ایک رقعہ چھوڑ جاتے جس میں کچھ اس قسم کی عبارت ہوتی تھی:
"تم لوگ دِین کے خلاف بہتان طرازی اور ہرزہ سرائی کرتے ہو اور ہمارے علما کو اپنی خرافات کا جواب دینے کا موقع نہیں دیتے۔ہمارے بچوں کو اسلام سے بدظن کرتے ہو، اب ہم تم سے اسی طرح نبٹیں گے"۔
مسلمانوں کی اس جوابی تحریک سے کمونسٹوں میں خوف و ہراس کی زبردست لہر دوڑ گئی تھی۔کوئی کمونسٹ اپنی جان محفوظ نہ سمجھتا تھا۔ادھر رات ہوتی ، اُدھر وہ اپنے گھروں میں دبک جاتے۔آخرِ کار مسجدوں اور بازاروں میں اعلان کروایا گیا کہ کسی شخص کو زبردستی کمونسٹ نہیں بنایا جائے گا۔وہ کمونسٹ پارٹی میں شامل ہوتا ہے یا نہیں، یہ اس کی اپنی صوابدید اور مرضی پر منحصر ہے۔نیز روحانیوں کو بھی راشن کارڈ جاری کیے جائیں گے۔اگرچہ کمونسٹوں نے محض ایک چال چلی تھی ، تاہم میری طرح اور بہت سے سادہ دل لوگ بھی اس اعلان سے مطمئن ہو گئے۔میں نے فیصلہ کیا کہ یہیں رہ کرعلمِ دین حاصل کروں گا۔
 شیخ محمد جان عرف بائی دچہ داملا ، خوقند کے مشہور عالم تھے۔
میرے نان کے شاگرد اور والد ِ مرحوم کے ہم سبق رہ چکے تھے۔
کمونسٹوں نے اُنہیں اپنے گھر میں نظر بند کر رکھا تھا۔اس اعلان کے بعد اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔اپنا تعارف کرایا اور عرض کی:
"میں یہیں رہ کر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں"۔
شیخ کچھ دیر تک خاموش رہے، پھر فرمایا:
"بیٹا، دینی تعلیم کی تحصیل ممنوع قرار دی جا چکی ہے۔صرف ایک صورت ہے، تم دن بھر نہ سہی ، آدھا دن ہی شہر میں محنت مزدوری کرو، اس طرح تمہیں میرے ہاں رہنے کا بہانہ مل جائے گا"۔
میں نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔دن بھر محنت مشقت کرتا اور رات کو شیخ سے علم ِ دین حاصل کرتا۔شیخ محمدجان داملا ، کمونزم کے نظریئہ الحاد پر گہری نظر رکھتے تھے۔تعلیم دیتے وقت سب سے زیادہ زور اسی پر دیتے۔کمونسٹ جو دعوے کرتے اور اسلام پر جو بہتان گھڑتے ، اُن کا پردہ بڑے قومی دلائل سے چاک کرتے۔
مجھے خوقند میں وارد ہوئے تیسرا مہینہ جا رہا تھا کہ کمونسٹوں نے اپنی اسلام دشمن سرگرمیاں پھر سے شروع کر دیں۔کمونسٹ حکومت نے پوری آبادی کی محلہ وار فہرست مرتب کی اور اسلام پسند شہریوں کی کڑی نگرانی کرنے لگی۔"عوامی پولیس"میں شہر کے غنڈے اور بدمعاش بھرتی کیے اور ان کے ذریعےاہلِ دین کو ڈرانے دھمکانے اور زدکوب کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔پھر گرفتاریوں اور اعترافِ جرم کا وسیع شیطانی چکر چل پڑا۔ستر اسی آدمی روزنہ غائب ہونے لگے۔میں خوقند کے متعدد بچے کھچے علماء کی خدمت میں حاضر ہوا، ان سے اس نازک و سنگین صورتِ حال کا زکر کیا اور رہنمائی چاہی ، مگر وہ لوگ بالکل مایُوس اور بے بس ہو چکے تھے۔اکثر کا جواب یہی تھا:
"بیٹا ، ہم لوگ تو موت اور شہادت کی گھڑیا گِن رہے ہیں"۔

Tuesday, January 14, 2014

سمرقند و بخارا کی خونیں سرگزشت

قسط نمبر 4

اب کمونسٹ بالکل بے لگام ہو چکے تھے ، وہ احتیاط جو خُفیہ تحریک کی وجہ سے انہوں نے چند روز کے لیے اختیار کی تھی، بالائے طاق رکھ دی گئی تھی۔عوام بڑی حد تک لیڈر شپ سے محروم کر دیے گئے تھے،اس لیے اب احتیاط کی ضرورت باقی بھی نہیں رہی تھی۔عام مسلمانوں میں جوش و خروش کے بجائے دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے اور قوتِ مزاحمت جواب دے گئی تھی۔کسی شخص کی جان اور عزت محفوط نہ تھی۔
میرے پاس ایک حمائل شریف(قرآن کریم)تھی جس کے کچھ اوراق پھٹ گئے تھے۔میں ایک جِلد ساز کی دکان پر گیا۔یہ دکان ٹوپی بازار میں تھی جو خوقند کی جامع مسجد کے شمال مغرب میں واقع ہے۔جلد ساز حمائل شریف کے اوراق درست کر رہا تھا کہ ایک کمونسٹ آیا اور بولا:
"کیا میری کتابوں کی جلد تیار ہو گئی ہے؟"
"ایک گھنٹے کا کام باقی ہے، تیار کر کے پہنچا دوں گا"
جلد ساز نے جواب دیا۔
"یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟"اس نے جلد ساز سے پھر سوال کیا۔
"یہ ۔۔۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔۔"جلد ساز گھبرا گیا۔"یہ قرآن شریف ہے، بس چند منٹ کا کام باقی ہے، پھر آپ کا کام پورا کردوں گا۔"
اس نے لجاجت بھر لہجے میں کہا۔
کمونسٹ غضب ناک ہو گیا۔اس کی آنکھوں میں خُون اُتر آیا۔جھپٹامار کر قرآن شریف جلد ساز کے ہاتھ سے چھین لیا اور چلایا:
"اس خرافات(معاذ اللہ معاذ اللہ)کے لیے تم نے میرا کام روک رکھا ہے"۔
اور پھر قرآن شریف کو باہر سڑک پر دے مارا۔اُف میرے خدا، میرا خون کھول اٹھا، پھر جیسے بے بسی نے میرے ہاتھ پاؤں جکڑ لیے ۔خون کا گھونٹ پی کر رہ گیا۔چپ چاپ اُٹھا ، قرآن شریف جا کر اٹھایا ، اسے بار بار چوُما۔اس خیال سے دل بھر آیا کہ ہم مسلمانوں کی دُوں ہمتی اور ضعف ایمانی یہا ں تک پہنچ چکی ہے کہ دشمن کُھلے عام کتابِ الٰہی کی توہین کرتے ہیں اور ہم اس کی آن پر جان بھی نہیں دے سکتے۔اتنے میں وہ بدمعاش دُکان سے نکل کر چل کھڑا ہوا۔میں نے جلد ساز کی اُجرت ادا کی اور اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔کچھ فاصلے پر تھانہ تھا ، جونہی وہ تھانے کے قریب پہنچا ، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کھینچ کر تھانے میں لے گیا۔تھانیدار کو سارا ماجرا سنایا اور اس بدبخت کی جسارت پر احتجاج کیا۔میں نے کہا:
"اس شخص نے حکومت کے احکام کی صریح خلاف ورزی کی ہے، خود حکومت اعلان کر چکی ہے کہ کوئی کمونسٹ، دین کے خلاف نہ کوئی نازیبا حرکت کرے گا اور نہ کسی کو جبراً ملحد بنائے گا، اس شخص کو اس مذموم حرکت کی سزا دی جائے"۔
تھانیدار نے میری شکایت پر کان تک نہ دھرا ، بلکہ اُلٹا مجھی کو ڈانٹا اور کہنے لگا:
"ہمارے پاس کیا لینے آئے ہو؟؟اپنے خدا کے پاس جاؤ جس کے نام پر تم مر جانے کا عقیدہ رکھتے ہو"۔
تھانے سے نکل کر جامع مسجد پہنچا۔یہ مسجد آج بھی موجود ہے، اسے عجائب گھر بنا دیا گیا ہے۔اس زمانے میں یہ شہر کے عین وسط میں تھی اور اپنے حجروں سمیت تقریباً 18 ایکڑ رقبے میں پھیلی ہوئی تھی، نہایت خوبصورت مسجد تھی اور بے شمار ستونوں پر تعمیر کی گئی تھی۔مسجد کے شمال میں بڑی سڑک تھی جس پر مسجد کی وقف دُکانیں تھیں۔مشرق میں بہت بڑا حمام تھا۔اس مسجد میں خوقند کے امیر خود نماز پڑھایا کرتے تھے یا پھر شیخ الاسلام ان کی نیابت کا فرض انجام دیتے۔اس آخری دور میں شیخ الاسلام تورہ خان داملا تھے۔ہفتے میں ایک دن وعظ فرماتے۔کمونسٹوں نے ابھی تک ان پر ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔البتہ موقع کے منتظر تھے اور ان کے خلاف ریشہ دوانیاں شروع کر دی تھیں۔ایک شخص کو باقاعدہ ان پر متعین کر رکھا تھا ، جو ان کی نقل و حرکت اور ان کے پاس آنے جانے والوں پر نظر رکھتا تھا۔یہ شخص ایک افغانی تھا۔بڑا ہی باتونی اور خوش گفتار۔دیکھنے میں بے حد خدا رسیدہ نظر آتا۔لمبی ڈاڑھی ، پیشانی پر بڑا سا گٹا، نماز باجماعت کبھی ناغہ نہ ہوتی۔صبح کی نماز میں سب سے پہلے آتا ، ستونوں کی آڑ میں کھڑا ہو جاتا اور دیر تک طویل قرات کے ساتھ سنتیں پڑھتا رہتا۔اس دوران میں ہر آنے والے پر اس کی نظر رہتی۔مسجد میں افغانی لباس پہن کر آتا اور باہر مقامی لباس میں چلتا پھرتا۔
مجھے اس شخص کی حرکتیں اور احوال مشکوک سے محسوس ہوئے، چنانچہ میں اس کے تجسس میں لگ گیا، پتہ چلا کہ آں جناب کو کمونسٹ پارٹی کی طرف سے تورہ خاں داملا پر مسلط کیا گیا ہے۔جنابِ والا نہ صرف تورہ خاں داملا کے خلاف جاسوسی کرتے ہیں ، بلکہ ان کے ملاقاتیوں اور ہجرت کر کے افغانستان جانے والوں کا سراغ بھی لگاتے ہیں۔
میں"آسپرہ گزری" میں منتقل ہو گیا۔یہ خوقند کا ایک محلہ ہے۔اس محلے کی مسجد بڑی خوبصورت اور حجُرے بڑے شاندار ہیں۔مجھے ایک حجرہ رہنے کو مل گیا، تاہم میں نماز بالعموم جامع مسجد ہی میں پڑھتا۔ایک روز نماز جمعہ کے بعد کچھ لوگ تورہ خان داملا کے مدرسے میں آئے۔افغانی گماشتہ بھی ان کے ساتھ تھا۔میں بھی ان لوگوں کے پیچھے پیچھے تورہ خان کی خدمت میں پہنچ گیا۔تورہ خان کو جب پتہ چلا کہ میں ان کے استاذ حضرت غیاث الدین ایشاں کا نواسا اور ہم سبق خوجہ خان کا بیٹا ہوں ، تو بڑی شفقت سے پیش آئے، میری پیشانی چومی اور دیر تک گھر والوں کا حال احوال پوچھتے رہے ، پھر نمنگان کے بعض مشہور علماء کا نام لے کر دریافت کیا:
"وہ آجکل کس حال میں ہیں؟"
جب میں نے بتایا کہ ان سب کو کمونسٹوں نے یا تو شہید کر دیا ہے یا جلا وطن ، تو محفل پر غم ناک خاموشی طاری ہو گئی۔
میں نے شیخ سے اجازت چاہی ، تو پوچھا:
"آپ کہا ں مقیم ہیں؟"

"مدرسہ میر عالم میں ایک حجرہ لیا ہے۔"میں نے عرض کیا۔صحیح پتہ افغانی کی وجہ سے نہیں بتایا۔مدرسہ میر عالم اسلامی دورِ حکومت کا ایک عظیم الشان دارالعلوم تھا جس میں ہزاروں طلباء پڑھا کرتے تھے۔اساتذہ اور طلباء کے لیے مدرسے کے ساتھ ہی ایک وسیع اقامت گاہ تھی۔آجکل یہ مدرسہ اور اس کی اقامت گاہ سوشلسٹ مزدوروں اور مختلف شہروں سے آنے والے روسی مسافروں کی رہائش گاہ بنی ہوئی ہے۔