قسط نمبر2
میں اپنے گھر سے رات کے
وقت چوری چُھپے کیوں نکلا؟کہاں کہاں کی خاک چھانی اور کن مصائب سے دوچار ہوا؟ان
سوالات کا جواب دینے سے پہلے مجھے ماضی کی طرف لوٹنا پڑے گا۔
فرغانہ (جوآجکل ازبکستان
کہلاتا ہے)کے ضلع اندجان میں ایک چھوٹا سا قصبہ"قائقی"ہے۔میں اسی قصبے
میں 1915ء میں پیدا ہوا۔میرے والد کا نام خوجہ خان داملا ہے۔(داملا تُرکی میں
مولانا کو کہتے ہیں)۔دادا کانام الشیخ عزت اللہ اور نانا کا غیاث الدین ایشان
نمنگانی ہے۔یہ سب حضرات اپنے وقت کے جید عالم تھے۔نانا جان پُورے تُرکستان میں
استادالعالم کہلاتے تھے۔ان کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔والد کے سلسلئہ نسب
میں چار پُشت تک علمائے دین اور سلسلئہ عالیہ نقشبندیہ کے خلفاء ملتے ہیں۔والدہ کی
طرف سے میرا شجرہ نسب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔میرے ننھیال کے بزرگ
قتیبہ بن مسلم کے ہمراہ تبلیغ دین کے لیے تُرکستان آئے تھے اور پھر یہیں کے
ہورہے۔اُسوقت سے گھرانے میں بڑے بڑے شیوخ اور علماء پیدا ہوئےجن کے مزارمیرے زمانہ
ہجرت تک موجود تھے۔
جب روسی زاروں نے
ترکستان پر جارحانہ حملہ کیا ، تو میرے نانا غیاث الدین ایشان اور والدہ کے ماموں
باطور تورہ نمنگانی اس جارحیت کی مزاحمت کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل تھے،
چنانچہ اس جُرم میں عمر بھر نظر بند رہے اور نظر بندی کی حالت میں انتقال ہوا۔میرے
تین ماموں عبدالحمید خان تورہ ، عبدالرشید خان تورہ اور محی الدین خان تورہ بڑے
متقی اور صاحب زہد و ورع بزرگ اور مرجع خاص وعالم تھے۔واضح رہے کہ "خان"
کا لفظ ترکستان میں یا تو سیدوں کے لیے استعمال ہوتا ہے یا بادشاہوں کے لیے۔ہمارا
خاندان بہت بڑا تھا۔ہم گیارہ بہن بھائی تھے۔پانچ بھائی اور بہنیں مجھ سے بڑی
تھیں۔ہمارے خاندان کی خواتین تک عربی اورفارسی کی عالمہ تھیں۔میری والدہ اور ان کی
چار بہنیں بڑی جید عالمہ تھیں۔
ہمارا ذریعہ معاش زراعت
اور تجارت تھا۔کوئی سوا پانچ مربع زمین تھی۔ڈھائی مربع زمین بارانی تھی اور باقی
نہری۔اس زمین میں باغات اور جنگلات بھی تھے اور کاشت بھی ہوتی تھی، چنانچہ ہم لوگ
خوشحال زندگی بسر کرتے تھے۔
ترکستان کے زرعی نظام کے
بارے میں کسی غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔زمین کے مالک بالعموم خود کسان ہوتے
تھے۔روس کی طرح زمین پر کمیرے کام نہیں کرتے تھے۔مزارعت کارواج بھی تھا، لیکن
مزرعین کی بالکل حق تلفی نہ ہوتی تھی۔انہیں اپنی محنت کا صلہ پُوراپورا ملتا
تھا۔ایسے دہقان جن کی اپنی زمین نہیں تھی بہت کم تھے۔ہندو پاکستان کی طرح بڑے بڑے
زمیندار اور جاگیر دار نہ تھے۔
میرے بچپن کا دور
انقلابی دور تھا۔ہمارے خاندان کے مرد تقریباً سب کے سب شہادت پا چکے تھے۔امی جان
عربی اور فارسی کی عالمہ تھیں، انہی کی رہنمائی میں تعلیم کا آغاز کیا۔ ابتدائی
تعلیم اپنے قصبے ہی میں حاصل کی ثانوی تعلیم نہنگان ، خوقند ، سمرقند اور شہر سبز
میں خفیہ طور پر جاری رکھی۔خُفیہ اس لیے کہ سوشلسٹوں نے ترکستان پر قبضہ کرنے کے
بعد دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی تھی۔دین کی تبلیغ و اشاعت تو بہت بڑا جرم
تھا۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے معنی یہ تھے کہ آپ خود بڑھ کر مصائب و آلام کو دعوت
دے رہے ہیں۔
4
انقلاب روس سے پہلے
ہمارے یہاں عصری اور جدید تعلیم برائے نام تھی۔ایک تو ذریعہ تعلیم روسی زبان تھا،
دوسرے تعلیمی اداروں کے سربراہی انتظام کیتھولک پادریوں کے ہاتھ میں تھا جو نہایت
متعصب اور تنگ نظر تھے۔استاد بھی بالعموم یہی لوگ ہوتے تھے۔ان کا مشن تعلیم
پھیلانے سے زیادہ مسلمانوں کو عیسائی بنانا تھا۔ان تعلیمی اداروں کے فارغ اتحصیل
لوگ بے دن بھی ہوتے اور روسی سامراج کے حامی بھی، چنانچہ عام مسلمانوں نے ان
اداروں کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔عوام کی نظر میں جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی کوئی
وقعت نہ تھی۔
جہاں تک دینی تعلیم کا
تعلق تھا ، ترکستان میں ہزاروں مدارس تھے۔تُرکی زبان ذریعہ تعلیم تھی۔کوئی شہر اور
قصبہ درسگاہ سے خالی نہ تھا۔مخیر حضرات نے لاتعداد مدارس کے لیے زمینیں وقف کر
رکھی تھیں۔طلبہ کو تعلیم مُفت ملتی تھی، لیکن وظائف یا کتابیں مستعاردینے کا رواج
نہ تھا۔طالب علم کو بارہ یا سولہ برس تک کے تعلیمی مصارف خود برداشت کرنا پڑتے
تھے۔دینی مدارس کے فارغ التحصیل حضرات یاتو کاروبار کرتے تھے یا روس کے مقبوضہ
علاقوں اور ماتحت ریاستوں میں فتویٰ نویسی اور مسلمانوں کے شخصی قانون سے متعلق
عدالتوں میں کسی منصب پر فائز ہو جاتے۔
ان درس گاہوں کی اپنی
دنیا تھی۔سیاست تو گویا شجرممنوعہ تھی۔یہ میدان علمانے لادین قوتوں کے لیے خالی
چھوڑ رکھا تھا۔ترکستانی معاشرہ عالم اسلام سے بالکل بے خبر اور بڑی حد تک کٹا ہو
تھا۔رفاہیت اور خوشحالی کی وجہ سے پورا معاشرہ خوابِ خرگوش میں مبتلا تھا۔ہر شخص
شاعر اور ہر فرد ہوس کار تھا۔سال میں چھ مہینے سیروتفریح میں کٹتے۔شکار کھیلنا ، نام
و نمود کی خاطر مال و دولت لُٹانا ہمارا طرہ افتخار اور امتیازی نشان بن چکا
تھا۔علما کی اکثریت تنگ نظر ، جمود کا شکار اور فروعات میں اُلجھی ہوئی تھی۔تصوف
کا دور دورہ تھا۔مشائخ اور صوفیا ، معاشرےاور قوم کے عملی مسائل سے بے نیاز
خانقاہوں میں گُم تھے۔مراقبہ ، کشف ِ قبور، عزلت گزینی، ریاضت ، چلہ کشی ، وحدت
الوجود پر بحث مباحثے اور نفس کشی ان کا اپنا شغل بھی تھا اور اپنے مُریدوں کو بھی
اسی کی تلقین کرتے تھے۔ان کے اس جمود پر کوئی تنقید کرتا ، تو جواب ملتا:"ہم
پر کون سا دشمن حملہ آور ہے؟؟اگر کبھی ایسا وقت آبھی گیا، تو ہم جہاد کے لیے میدان
میں نکل آئیں گے، بلکہ خانقاہی ترتیب کا حقیقی مقصود جہاد کی تیاری ہی ہے۔
یہ تھے تُرکستان کے
مسلمان معاشرے کے شب و روز جب 1917ء میں رُوس میں انقلاب آیا۔زار شاہی کا تختہ
اُلٹنے کے بعد جمہوریت پسند نیشنلسٹ روسیوں نے الیگزنڈر کرنسکی کی سربراہی میں
عبوری حکومت قائم کر لی۔ادھر تُرکستان نے بھی اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔خوقند اس
نو آزاد ریاست کا دارالحکومت تھا۔کرنسکی حکومت نے تُرکستان کی اس آزاد مملکت کو
تسلیم کر لیا، لیکن اُس کے پاس ایک دستہ فوج بھی نہ تھی۔ملیشیا (نیشنل گارڈ)کے نام
سے پولیس کے دستے تھے، تاہم آزاد حکومت کے رہنماؤں نے آزادی کو مستحکم کرنے کے لیے
دن رات ایک کردیا۔علما نے بھی ان کے ساتھ پُورا پُورا تعاون کیا۔دستور ساز مجلس
وجود میں آئی اور دستور سازی کا کام پوری تیزی سے شروع ہو گیا۔اس اثنا میں
کمونسٹوں نے لینن کی قیادت میں کرنسکی حکومت کا تختہ اُلٹ کر رُوس پر قبضہ کر
لیا۔فروری 1918ء میں سوشلسٹ رُوس تُرکستان پر چڑھ دوڑا اور اس کی چند روزہ آزادی
کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔دسمبر 1921ء میں اس نے بخارا اور جمہوریہ خیوا پر اپنے
سامراجی چُنگل گاڑ دیے۔
کمونسٹوں نے تُرکستان پر
مسلط ہوتے ہی زمینیں ، باغات ، دُکانیں اور کار گاہیں غضب کر لیں۔کسان ، تاجر ،
علما اور مذہت سے وابستہ افراد خواہ وہ پڑھے لکھے سفید پوش تھے یا اَن پڑھ مزدور
اور کاشت کار، سب کو حقوق شہریت سے محروم کر دیا گیا۔نماز ، روزہ جُرم قرار
پائے۔حج پر پابندی لگا دی اور مسجدیں بند کر دیں۔
مسجدیں بند کرنے کے لیے
مکارانہ ہتھکنڈے اختیار کیے گئے۔سب سے پہلے مسجدوں اور مدرسوں کے اوقات ضبط کر لیے
گئے۔اس طرح مسجدیں اور دینی درسگاہیں اپنے وسائلِ زندگی سے محروم ہو گئیں۔پھر
مسجدوں پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے گئے۔جب لوگوں نے چندہ جمع کرکے ٹیکس ادا کیا ،
تو چندہ دینے والوں پردفینہ ٹیکس لگا دیا گیا۔علانیہ کہا جانے لگا کہ جو لوگ
مسجدوں کو ٹیکس ادا کرتے ہیں ، انہوں نے خزانے چُھپا رکھے ہیں، ہم یہ خزانے ان سے
اُگلوائیں گے۔اب مسجد ٹیکس ادا کرنے کی جرات کون کرتا؟چنانچہ جب مقررہ میعاد میں
ٹیکس ادا نہ ہوتا ، تو ایک ہفتے بعدمسجد پر جرمانہ عائد کر دیا جاتا،جو وقت کی
رفتار کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہتا۔ادھر جو لوگ نماز پڑھتے ، ان پر "نمازی
ٹیکس"عائد کر دیا گیا۔نتیجہ یہ کہ لوگ گھروں میں نماز پڑھنے لگے اور مسجدیں
ویران اور بے آباد ہوگئیں۔جب کوئی مسجد اس طرح ویران ہو جاتی، تو ایک روز کیمونسٹ
اس میں جمع ہوتے اور ایک قرار داد منظور کرتے کہ یہ مسجد بے کار اور ویران پڑی ہے،
اس میں کوئی شخص نماز پڑھنے نہیں آتا، اس لیے حکومت کو چاہیے وہ اس کو کسی رفاہی
کام میں استعمال کرے۔دوسرے روز قرارداد سرکاری گزٹ میں شائع ہوجاتی اور کمونسٹ
مسجد پر قبضہ کرکے یا تواسے شہید کر دیتے یا اصطبل ، کلب اور رقص گھر وغیرہ میں
بدل دیتے۔
کمونسٹ پارٹی کی شاخیں
ایک ایک محلے میں کھول دی گئی تھیں۔یہ شاخیں دین کے خلاف ریشہ دوانیاں کرتیں اور
اُسے بیخ و بُن سے اُکھاڑنے کے لیے منصوبے بناتیں۔روزی کمانے کے لیے لائسنس حاصل
کرنا لازمی قرار دے دیا گیا۔لائسنس کے بغیر کسی شخص کو کھیتی باڑی ، صنعت و صرفت ،
تجارت حتٰی کہ محنت مزدوری کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔مذہب سے وابستگی اور ملی
اورقومی روایات سے محبت رکھنے والوں کے لیے لائسنس کا حصول تقریباً ناممکن
ہوگیا۔اس کے لیے دین و ایمان سے برات کا اعلان کرنا پڑتا۔ادھر بدمعاشوں اور قاتلوں
کو کھلی چُھٹی دے دی گئی۔دیندار اور نماز روزے کے پابند مسلمانوں پر حملے ہونے لگے
، لیکن کبھی کوئی قاتل گرفتار نہ ہوا۔اسی طرح ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا
گیا۔1927ء کے بعد اس قتل و خونریزی اور اسلام دشمنی میں اور اضافہ ہوگیا۔کمونسٹ ،
اسلام پر بہتان طرازی کرتے، قرآن و حدیث ، دین اور دینی پیشواؤں کے مضحکہ خیز
کارٹون بنا کر سڑکوں پر اور مسجدوں میں چسپاں کرتے، بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی ذات اقدس پرکیچڑ اُچھالتے ، تھیٹروں اور سنیماؤں میں ہتک آمیز ڈرامے کھیلتے ،
ان کارٹونوں وغیرہ سے نظر بچانے کو کوشش کرنا جُرم تھا۔کمونسٹوں کی چیرہ دستیوں
اور اسلام دشمنی کی انتہا یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرضی پُتلا بنا کر
چوراہوں میں رکھ دیتے اور جو شخص بھی ادھر سے گزرتا ، اُس کو پکڑ لیتے اور بڑی
دریدہ دہنی کے ساتھ اس پُتلے کی طرف متوجہ کرتے۔ان حالات میں ان لوگوں کے لیے جو
مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے تھے، اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ
ہجرت کر جائیں۔
ایک دن کا ذکر ہے ،
ہمارے قصبے کی بڑی مسجد میں کمونسٹوں نے ایک جلسہ منعقد کیا۔پورے قصبے میں ڈونڈی
پٹوائی کہ ہر شخص کو حکم دیا جاتا ہے وہ اس جلسے میں شریک ہو، غیر حاضر رہنے والے
کو سزا دی جائے گی۔لوگ مارے باندھے جمع ہوگئے۔مسجد میں تِل دھرنے کو جگہ نہ
رہی۔جلسے کی کاروائی شروع ہوئی۔سب سے پہلے ناظم جلسہ نے اعلان کیا کہ روحانی لوگ
مسجد سے چلے جائیں۔واضح رہے کہ جو لوگ دین و مذہب سے عقیدت رکھتے ہیں ، اُنہیں
ترکستان میں روحانی کہا جاتا ہے۔اس اعلان پر بہت سے لوگ اُٹھ کر جلے گئے۔اب زیادہ
تر آوارہ گرو ، بدمعاش اور کمزور ایمان والے مرد یا ناسمجھ بچے باقی رہ گئے
۔کمونسٹوں نے جانے والوں کا نام لکھ لیا۔تھوڑی دیر تک خاموشی طاری رہی، پھر زور
زور سے گھنٹے بجائے گئے۔جی ہاں مسجد میں گھنٹے۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح گرجوں میں بجائے جاتے
ہیں۔ایک تو ماحول پہلے ہی پُر ہول تھا، گھنٹوں کی آواز سے ہیبت اور بڑھ گئی، پھر
ایک شخص سٹیج پر آیا۔بتایا گیا کہ یہ صاحب اسلامی فلسفی ہیں۔وہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے
تک اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا اور مُنہ سے جھاگ اڑاتا رہا۔قلم میں طاقت نہیں
کہ اس ہرزہ سرائی کو من و عن بیان کر سکے۔مختصر الفاظ میں اس نے کہا کہ مذہب
بالخصوص اسلام نے خُدا کا تصور جو دلوں پر بٹھایا ہے اس کا مقصد عوام کو لُوٹنا
ہے۔یہ تصور سرمایہ داروں اور مُلاؤں نے اپنی شکم پروری کے لیے ایجا د کیا ہے۔اللہ،
رسول صلی اللہ علیہ وسلم یومِ آخرت ، حشر و نشر ، جنت دوزخ ، فرشتے اور جنات وغیرہ
تمام عقائد ڈھکوسلے ہیں اور رُوحانیوں کا بچھایا ہوا دام تزویر ، کمونسٹ پارٹی ان
تصورات کا قلع قمع کرکے عوام اور محنت کشوں کو دامِ تزویر سے چُھٹکارا دلانے کا
عزم صمیم رکھتی ہے۔
مقرر جوشِ تقریر میں
چلایا:
"کیا کوئی سوال
کرنا چاہتا ہے؟"
اس دریدہ دہن کی خرافات
سُن کر میرا خون کھول رہا تھا۔میں تڑب کر اُٹھا اور کمونسٹوں کے تیوزوں کی پروا نہ
کرتے ہوئے بولا:"جو لوگ تمہاری اس خرافات کا جواب دے سکتے تھے، اُنہیں تو تم
نے نکال دیا، کیا اب ان کی روح سے جواب مظلوب ہے؟"جوش کے عالم میں جانے کیا
کچھ کہہ گیا۔بس اتنا احساس ہے کہ مسجد میں سناٹا چھایا ہوا تھا اور اس سناٹے میں
میری آواز گونج رہی تھی۔اچانک شور بلند ہو:"پکڑو پکڑو۔۔۔۔۔۔"اور پھر
کمونسٹ چاروں طرف سے مجھ پر پل پڑے اور لاتیں اور مُکے برسانے لگے۔میرا کوٹ پھٹ
گیا، کپڑے تارتار ہوگئے ، پھر پولیس نے دھکے دے کر اور ڈنڈے مار کر باہر نکال
دیا۔گھر پہنچا تو امی جان اور چھوٹے بہن بھائی میری حالت دیکھ کر پریشان ہوئے۔امی
جان کی پریشانی تو دیکھی نہ جاتی تھی۔ان کی پریشانی بجا تھی۔دین اور اہل دین کا جو
حشر ہو رہا تھا، وہ ان کے سامنےتھا۔خود ہمارا اپنا خاندان بھی محفوظ نہ رہا
تھا۔سوشلسٹ پولیس میرے چچا ، دو ماموں ، ایک بہنوئی ، دو خالہ زاد بھائیوں اور
متعدد عزیزوں کو دینی پیشوا ہونے کے جُرم میں ان کے گھروں سے پکڑ کر لے گئی تھی
اور پھر آج تک پتہ نہ چل سکا تھا انہیں زمین کھا گئی ہے یا آسمان اُچک لے گیا
ہے۔امی جان نے پوچھا:
"بیٹے ، ماں تم پر
نثار ، یہ تمہیں کس نے مارا ہے؟"میں نے ہر چند ٹالنے کی کوشش کی ، مگر امی
جان کا اصرار بڑھتا گیا۔بار بار کے اصرار سے مجبورہو کر میں نے ساری داستان سنا
دی۔امی جان سن رہی تھیں اور رو رہی
تھیں۔سارا ماجرا سُن کر فرمایا:"نور بصر، یہ لوگ جاہل اور بے ددین ہیں اور
انہی کا راج ہے،ان بے ہودہ لوگوں کو علم اور حقیقت کی ہوا تک نہیں لگی۔ان کی
خرافات دین حق پر محض بہتان ہیں۔اچھا ، مجھے اب تمہارے متعلق کچھ سوچنا پڑے گا۔لو
اب کھانا کھا لو۔
دل اس قدر بے چین اور
مضطرب تھا کہ کھانے کو جی نہ چاہتا تھا۔امی جان نے اپنے ہاتھ سے زبردستی چند نوالے
کھلائے۔رات خاصی گزر چکی تھی۔امی جان اور دو بہنوں نے میرے پیچھے نمازِ عشا پڑھی،
پھر امی مجھے اپنے کمر ہ خاص میں لے گئیں ، ایک کتاب دی اور فرمایا:"لو بیٹا
، اس کا مطالعہ کرو"۔
میں نے کتاب کھول کر
دیکھی ، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جلد تھی اور قازان میں چھپی
تھی۔امی جان تو چلی گئیں۔میں نے جو مطالعہ شروع کیا، تو ساری رات اسی میں کٹ
گئی۔صبح صادق سے کچھ پہلے امی جان کمرے میں آئیں ، میرے ہاتھ سے کتاب لے کر رکھ دی
اور فرمایا:
"جانِ مادر ، اب
تھوڑی دیر آرام کر لو"۔
کوئی گھنٹہ بھر سویا ہو
ں گا کہ امی دوبارہ تشریف لائیں اور نمازِ فجر کے لیے جگایا۔صبح کی نماز بھی ہم نے
باجماعت ادا کی۔دن چڑھے باغبانی میں لگ گئے۔
دونوں چھوٹے بھائی مدرسے
چلے گئے تھے۔دوپہر کے بعد گھر آئے ، تو امی جان سے کچھ کہا۔امی بولیں، یہ دشمنانِ
دین ہیں اور دشمن ایسے ہی بک بک کرتے ہیں۔
پتہ چلا کہ مدرسے میں
ڈرامہ ہو تھا جس میں نماز ، روزے اور دوسرے سلامی شعائر پر حملے کیے گئے اور اُن
کا مذاق اڑایا گیا۔دوسرے دن بچے اسکول گئے ، تو ان سے والدین کے تاثرات پوچھے
گئے۔پندرہ دن بعد امی جان کو اس بنیاد پر حقوق شہریت سے محروم کر دیا گیا۔کہ وہ
روحانیہ اور عالمہ دین ہیں۔امی نے اس موقع پر فرمایا:
"اب ہمارا ایمان
آزمایا جائے گا۔ان لوگوں سے یہی توقع تھی۔یہ بدمعاش اس سر زمین میں دینی شعور و
احساس رکھنے والے کسی انسان کو زندہ نہ چھوڑیں گے"۔
پھر امی جان مجھے الگ ایک طرف لے گئیں اور
فرمایا:"بیٹے ، کچھ خبر نہیں دشمن کب مجھے شہید یا جلا وطن کردے۔یہاں مسلمان
بن کر رہنا ممکن نہیں رہا، میں تمہیں ہجرت کی اجازت دیتی ہوں۔کسی اور ملک میں چلے
جاؤ تاکہ ایک مسلمان کی زندگی بسر کر سکو"۔
اب ہمارا وقت زیادہ تر
چپکے چپکے صلاح مشورے میں گزرتا۔مجھے اپنے والد ، دادا اور نانا سے نہایت گراں بہا
اور نایاب ذخیرہ کُتب ملا تھا۔امی جان کے مشورے سے والد مرحوم کے مہمان خانے کی
تقریباً چھ فٹ موٹی دیوار میں شگاف کیا گیا اور تمام کتابیں اس میں رکھ کر دیوار
چُن دی۔ہمیں یقین تھا سوشلسٹ حکومت ضرور اس عمارت پر قبضہ کر لے گی اور اس کو
منہدم کرنے کے بجائے کسی سرکاری استعمال میں لے ائے گی۔امی جان کو شہری حقوق سے
محروم کرنے کے ٹھیک 23 دن بعد میں ہجرت کی راہ پر گامزن ہو چکا تھا۔