Monday, February 3, 2014

دجالی ریاست کے قیام کے لیے جسمانی تسخیر کی کوششیں

 آخری قسط

دجال کے بے دام غلام

فری میسنری اور قادیانیوں کی ملی بھگت کی روداد ایک بھٹکے ہوئے نوجوان کی عبرت آموز آپ بیتی
میری دوستی ایک قادیانی سے رہی ہے۔یہ بغیر علم کے دوستی تھی یعنی اس سے قبل مجھے علم نہیں تھا کہ وہ قادیانی ہے۔یہ دوستی ایک روزنامہ میں شائع ہونے والے دوستی کے ایک اشتہار کے ذریعے شروع ہوئی۔گزشتہ دوسال کی دوستی میں اس کی جماعت اور خود اُس کے ذریعے سے جو حقائق میرے سامنے آئے ہیں وہ ہوش گم کر دینے والے ہیں۔اس روزنامے کا پورا کلاسیفائیڈ مختلف عنوانات کے تحت شائع ہوتے ہیں(روزنامہ"خبریں" میں 2005ء سے لے کر اب تک کے شمارے دیکھیں)
لڑکیوں سے دوستی کے یہ تمام اشتہارات قادیانی جماعت اور "عالمی فری میسنری" کے مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی مشترکہ لابی کی جانب سے ہوتے ہیں جو اپنی طاقت بڑھانے کے لیے شب و روز کوشاں ہے۔ان اشتہارات کے جواب میں جو خواتین ملتی ہیں وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوتی ہیں۔یہ بہت ہی آزاد خیال خواتین بڑی آسانی سے آپ کی خواہشات پوری کرنے پر تیار ہو جاتی ہیں، کیونکہ ان کی بہت بڑی اکثریت ایڈز کے عارضے میں مبتلا ہوتی ہے۔کچھ ٹی بی کے عارضے میں مبتلا ہوتی ہیں۔ان کے ساتھ بوس و کنار کرنے والا بھی بہت سے عوارض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔قادیانیوں کی یہ دانستہ کوشش ہے کہ لاہور اور اس کےگردونواح میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر کے ہلاک کر دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ارتدادی مہم کے ذریعے اپنے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔میں ایسی چند خواتین سے ٹکرا چکا ہوں۔میں جو انکشافات کرنے جا رہا ہوں ان میں سے بہت سی معلومات کا ذریعہ یہ خواتین بھی ہیں۔دوستی اشتہار کے ذریعے ملنے والی ایک خاتون سے مجھے کافی معلومات ملی ہیں۔جو سب سے اہم انکشاف ہوا وہ یہ تھا کہ قادیانیوں کا گروہ ایڈز کی مریضاؤں کے ذریعے پاکستان خصوصاً لاہور کے شہریوں میں ایڈز کا وائرس پھیلا رہا ہے۔ایڈز کی ان مریضاؤں کو مختلف این جی اووز اور خصوصی ذرائع سے اکٹھا کیا گیا ہے۔اس کاروائی کا مقصد انتہا پسندوں کی آنے والی نسلوں تک کو برباد کر دیناہے۔ان لوگوں کے پاس ایڈز اور دیگر امراض میں مبتلا مرد اور خواتین رضاکاروں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ممکنہ طور پر ان خواتین میں سے کچھ بھارت سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ان خواتین کو مال و دولت کے لالچ اور ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے بہانے قبضے میں لے کر بلیک میل کیا جاتا ہے۔اس منصوبے میں کچھ بیرونی قوتیں بھی اس گروپ کی بھر پور معاون ہیں یعنی اس منصوبے میں "را" ، "سی آئی اے" ، "موساد" اور یہودی و قادیانی لابی پارٹنر ہیں اور یہ لوگ لاہور میں "گراس روٹ لیول " پر کام کر رہے ہیں۔ان کی بھر پور کوشش ہے کہ ہمارے ملک خصوصاً پنجات کے قحبہ خانوں میں موجود خواتین کو ایڈز کے عارضے میں مبتلا رضا کاروں کے ذریعے اسی عارضے میں مبتلا کر دیا جائے، تاکہ یہ خواتین ایک کیریئر بن کر آگے یہ عارضہ پھیلائیں۔ ان خواتین کے پاس جانے والے لوگ بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائیں اور اپنی جائز و حلال بیویوں اور آنے والی معصوم نسلوں کو بھی زہر آلود کریں۔اس طرح آنے والے برسوں میں بے شمار لوگ متاثر ہوں گے اور ان بیماریوں کی دستیاب ادویہ کو بیچ کر قادیانی جماعت بے حساب منافع کمائے گی۔اس کا مقصد آنے والے برسوں میں سرمائے اور بائیو لو جیکل لڑائی کے ذریعے لاہور اور اس کے گرد و نواح میں اسرائیل کی طرز پر ایک قادیانی ریاست کی داغ بیل ڈالنا ہے۔
آپ دیکھیں گے کہ آنے والے وقت میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوگا۔اول تو ایڈز کے تشخیصی مراکز کی تعداد خاصی کم ہے اور جو ہیں ان پر اس لابی کا کنٹرول ہے۔یہ لوگ لیبارٹری الائزا ٹیسٹ کروانے والے لوگوں کو نیگٹیو رپورٹ دیتے ہیں ، تاکہ طویل عرصے تک لاہور میں کسی کو بھی ایڈز کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہ ہوسکے۔
ایڈز کے علاوہ ہیپاٹائٹس کو بھی پوری طاقت سے پھیلایا جا رہا ہے۔صرف مشرف دور میں جبکہ ان وطن دشمنوں کو پھلنے پھولنے کے خوب ذرائع میسر تھے ، لاکھوں لوگ ہیپا ٹا ئٹس سی میں مبتلا ہوئے، جبکہ اس سے قبل یہ عارضہ بہت ہی کم پایا جاتا تھا۔یاد رہے کہ"ہیپاٹائٹس سی" صرف خون کے انتقال سے پھیلتا ہے اور اس کے بارے میں یہ تاثر کہ گندے پانی سے پھیلتا ہے ، درست نہیں۔جگر کے کسی بھی ماہر ڈاکٹر سے ملیں یا انٹر نیٹ پر ہیپاٹائٹس سی کی وجوہات کو جانا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہیپاٹائٹس سی لاحق ہونے کا گندے پانی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔گندے پانی کا تعلق صرف ہیپاٹائٹس اے یعنی پیلے یرقان سے ہے۔آج پاکستان میں کروڑوں لوگ(کم و بیش ایک تہائی آبادی) ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے اور ان میں سے 99۔99فیصد لوگ انتقالِ خون کے مرحلے سے کبھی نہیں گزرے۔ان میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جنہوں نے کبھی ناک، کان نہیں چھداوائے اور نہ ہی کبھی دانتوں کا علاج کروایا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔امراضِ جگر کے ہر ماہر کے لیے یہ امر باعثِ حیرت ہوگا کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد مسلسل ہیپاٹائٹس سی میں کس طرح مبتلا ہو رہی ہے؟تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ مشرف دور میں قادیانیوں کے تعاون سے پاکستان کے طول و عرض میں ہیپاٹائٹس کے خون سے آلودہ کروڑوں سرنجیں پھیلائی گئیں۔خصوصاً سرکاری ہسپتالوں میں دی جانے والی سرنجوں میں سے مخصوص تناسب کی سرنجیں جراثیم آلود ہوتی تھیں اور یہ سلسلہ شاید اب تک جاری ہو۔ساتھ ہی ساتھ منظم طریقے سے پروپیگنڈا بھی کیا گیا کہ ہیپاٹائٹس سی گندے پانی کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے۔ان کا ٹارگٹ یہ ہے کہ آیندہ دس پندرہ پرس کے دوران پاکستان کے کم ہ بیش تمام شہریوں کو ہیپاٹائٹس کی کسی نہ کسی قسم یا ایڈز میں ضرور مبتلا کردیا جائے اور ساتھ ہی دوائیں اور منرل واٹر بیچ کر بے حساب منافع کمایا جائے۔
ایک سوال یہ ہے کہ اتنی سرنجوں کو آلودہ بنانے کے لیے خون کہاں سے آتا ہے؟قادیانی جماعت اس کے لیے دو طریقے استعمال کر رہی ہے۔پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ لاہور کے پاگل خانے میں موجود زیادہ پاگلوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کرنے کے بعد ان کے جسم سے خون حاصل کیا جاتا ہے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جیل میں موجود منتخب قیدیوں کو ایڈز میں مبتلا کیا جاتا ہے۔ایسا کرنے سے قبل ان قیدیوں کا بیک گراؤنڈ اور نفسیاتی کیفیت اچھی طرح جانچ لی جاتی ہے۔اس مقصد کے لیے بہت ہی منفی اور لادین ذہنیت رکھنے والے افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی بے راہ روی کا ثبوت بھی حاصل کر لیا جائے۔حال ہی میں لاہور کے قیدیوں کا چیف جسٹس کے حکم پر طبی معاینہ کیا گیا تو ان میں سے 46 ایڈز کے مریض نکلے ہیں۔لیکن یہ کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ہوا یہ کہ چیف جسٹس ایک منصوبے کے تحت یہ اطلاع دی گئی کہ لاہور میں قیدیوں پرظلم ہو رہا ہے اور ان کا طبی معاینہ نہیں کیا جا رہا ہے۔جب چیف جسٹس کے حکم پر یہ طبی معاینہ کیا گیا تو مریضوں کا انکشاف ہوا۔اب ایڈز کے یہ مریض آہستہ آہستہ رہا ہوں گے اور سال چھ مہینے کے بعد ان کو ہر کوئی بھول جائے گا۔اس کے بعد ان سے رابطہ کرنے کے بعد قادیانیوں اور اسرائیلیوں کے لیے کام کرنے کی آفر کی جائے گی۔ان لوگوں کی منفی ذہنیت کی پہلے ہی تصدیق کر لی گئی ہے۔لہذا ان ایڈز کے مریضوں کے راضی ہونےمیں کوئی شبہ نہیں۔ایسے رضاکاروں سے پنچاب کے مختلف قحبہ خانوں میں موجود خواتین کو ایڈز زدہ کرنے کا کام لیے جانے کا منصوبہ ہے، تاکہ یہ خواتین ایک چین کی صورت اختیار کرکے اپنے گاہکوں اور اُن کے گاہک آگے اپنے بیوی بچوں کو ایڈز زدہ کردیں۔اس طریقے سے لاکھوں لوگوں کو بیماریوں میں مبتلا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ایسے قسم کے ایڈز زدہ رضاکاروں کو ایڈز پھیلانے کے لیے باقاعدہ ٹارگٹ دیے جاتے ہیں جن کی تکمیل پر بہت خطیر انعامات دیے جاتےہیں۔اس صورتِ حال میں چیف جسٹس کو ایک منصوبے کے تحت استعمال کیا گیا ہے تاکہ ایڈز کے مریضوں کو ان کے مرض سے آگاہ کرنے کا جواز پیدا ہو سکے اور مریضوں کو شبہ بھی نہ ہو۔
یہ وہ حیاتیاتی جنگ ہے جو یہودیت کے لیے کام کرنے والے قادیانیوں نے پاکستان پر مسلط کی ہے۔اس طریقے سے کروڑوں لوگوں کو ہیپاٹائٹس اور ایڈز میں مبتلا کرکے موت کی جانب گامزن کر دیا گیا ہے۔انسانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا المیہ ہے، شاید کشمیر اور فلسطین سے بھی بڑا ، لیکن اس کا کسی کو احساس تک نہیں ہے۔الٹا اس کے باوجود مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھاجاتا ہے۔
بائیولوجیکل لڑائی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہودیوں اور قادیانیوں کی باہمی ملی بھگت سے چین اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے۔بدنام زمانہ یہودی تنظیمیں پاکستان پر پاؤں پھیلانے کے لیے قادیانیوں کی مدد کر رہی ہیں تو قادیانی چین میں بیماریاں پھیلانے کے لیے افرادی قوت مہیا کر رہے ہیں۔اس کا بڑا مقصد مستقبل میں چین کی اقتصادی ترقی کو متاثر کرنا ہے۔انڈوینشیا میں بھی اس قسم کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔اس مقصد کے لیے انڈونیشیا کی قادیانی کمیونٹی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس بائیو لوجیکل جنگ کے دوسرے طریقے میں اپنے ٹارگٹ کو جوس میں ملا کر ہلکا زہر نما محلول دیا جاتا ہے۔جوس میں ملائے جانے والے اس بائیو لوجیکل میٹریل کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ جگر کو شدید طور پر متاثر کرتا ہے، لیکن فوری طور پر انسان کا خود کار دفاعی نظام حرکت میں آتا ہےاور متاثر جگر کے گرد چربی کی تہہ جم جاتی ہے جو جگر کو بکھرنے نہیں دیتا یعنی جگر چربی زدہ ہو جاتا ہے۔اگرچہ اس طریقے سے انسان فوری طور پر نہیں مرتا لیکن اس کی زندگی کا دورانیہ کم ہوجاتا ہے۔ہمارے ملک کے ایک معروف قانون دان اس کی واضح مثال ہیں۔جنہیں دوران قید اس کا نشانہ بنا کر معذور بنا دیا گیا۔یہ لوگ نہ صرف یہ عوارض پھیلاتے ہیں بلکہ ان کی ادویہ بیچ کر بے حساب منافع کما چکے ہیں۔اس لابی کے ایجنٹوں میں اس وقت برین ہیمبرج کا سبب بننے والی ادویہ بہت مقبول ہیں۔انہیں عموماً پروفائل ٹارگٹس کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔یہ دوا انسان کی شریانوں کو بلاک کر دیتی ہےجس سے برین ہیمبرج یا ہارٹ اٹیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معاشرے سے آزاد خیال لوگوں کو چھانٹنے کے لیے پورے شہر میں جگہ جگہ ایسے جوس کارنر قائم کیے جا رہے ہیں جہاں جوڑوں کو مل بیٹھنے کا موقع دیا جاتا ہے۔یہاں پر ایسے لوگوں پر خاص طور پر نظر رکھی جاتی ہے اور نسبتاً زیادہ آزاد خیال لوگوں کو ٹریپ کیا جاتا ہے۔ان لوگوں کو جوس میں مختلف مضر صحت اشیا ءڈال کر ذہنی معذور اور بیمار بنایا جاتا ہے۔اس کا محرک یہ ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا آزاد خیال شخص جب شدید بیمار ہوجاتا ہے تو پھر اُس کی زندگی کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مرنےسے قبل زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرکے اپنے پیاروں کی زندگی کو تحفظ دے جائے۔ایسا شخص درست یا غلط کی پہچان کو بھلا کر دولت کی خاطر بڑے سے بڑا رسک لینے کے لیے تیار ہوجاتا ہےاور کوئی شخص اس اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو پھر وہ فری میسنری اور ان کے بے دام غلام قادیانیوں کے لیے کام کا آدمی قرار پاتا ہے۔ایسے تیار لوگوں سے ہیروئن اسمگلنگ ، قبائلی علاقوں میں جاسوسی اور بیماریاں پھیلانے کے پُر خطر کام لیے جاتے ہیں۔حیلے بہانوں سے ایسے لوگوں کے بچے بھی قبضے میں لے لیے جاتے ہیں جس کے بعد ایسا شخص مزاحمت کے بالکل بھی قابل نہیں رہتا اور ساتھ ہی ساتھ قادیانیوں کی وفادار اور بظاہر مسلمان ایک نئی نسل تیار کی جارہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ یہ لابی اپنے زیادہ تر ایجنٹوں کو بیمار کرنے کے بعد استعمال کرتی ہے اور یہ معاہدہ تمام زندگی پر محیط ہوتا ہے۔اپنے ایجنٹوں کو بیمار کرنے کے پس منظر میں یہ سوچ کارفرما ہے کہ بہت زیادہ بوڑھا آدمی مذہب کی جانب راغب ہو کر سدھر سکتا ہے، ویسے بھی بوڑھا آدمی زیادہ کام کا نہیں رہتا۔اس لیے یہ سنگ دل لوگ اپنے لوگوں کا لائف پیریڈ کم کر دیتے ہیں۔
ان لوگوں کو دنیا کا جدید ترین ٹیلی کمیونیکیشن نظام مہیا کیا گیا ہے۔آپ کو یہ جان کر بالکل حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان میں کسی بھی شخص کا فون ان لوگوں کی پہنچ سے باہر نہیں ہے اور روشن خیالوں اور انتہا پسندوں کو چھانٹنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔جی پی ایس کے ذریعے مطلوبہ فرد کی لوکیشن بھی معلوم کی جاسکتی ہے۔ان آلات کا غلط استعمال بھی زوروں پر ہے۔یہ لوگ انسداد منشیات کے اعلیٰ اہلکاروں کے فون ٹیپ کرتے ہیں۔جس سے انہیں منشیات کی اسمگلنگ میں آسانی رہتی ہے۔
اب آتے ہیں لڑکیوں سے دوستی کے اشتہارات کی جانب۔ہوتا یہ ہے کہ لڑکیوں سے دوستی کے اشتہارات سے رابطہ کرنے کے بعد ملنے والی لڑکی اپنی مرضی کے جوس کارنر یا ریسٹورنٹ لے کر جاتی ہے۔کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ جوس کارنر یا ریسٹورنٹ خود ان لوگوں کی ہی ملکیت ہوتا ہے۔مجھے ملنے والی خواتین مجھے نہر کے کنارے "حسن جوس کارنر"نزد لال پل لاہور لے کر گئیں۔ہوتا یہ ہے کہ جوجوس لڑکی کے سامنے رکھا جاتا ہے وہ بالکل ٹھیک ہوتا ہے لیکن جو جوس آپ کے سامنے رکھا جاتا ہے اُس میں ہلکا زہر ملا ہوتا ہے۔یہ آہستہ آہستہ انسانی ذہن کو معذور اور انسانی جسم کو مفلوج کرتا ہے۔ان کا خاص اڈہ ہے۔"حسن جوس کارنر" کے علاوہ مجھےجی ٹی روڈ نزد شالامار پر واقع صدیقی کلینک پر متعدد مرتنہ لے جایا گیا۔قادیانیوں کی ایک این جی او کا دفتر 40 ڈی ماڈل ٹاؤن میں بھی قائم ہے۔اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف صدیقی کلینک، حسن جوس کارنر اور 40 ڈی پر اپنی توجہ مبذول کر لیں تو انہیں ثبوت مل جائیں گے۔جن قحبہ خانوں کا میں نے ذکر کیا، ان میں سے ایک کے بارے میں جانتا ہوں۔یہ لاہور کے لیاقت آباد کے علاقے میں گندے نالے کے قریب واقع ہے۔یہاں گھروں کے نمبر واضح نہیں ہیں۔یہ سالار اسٹریٹ کے درمیان ایک گلی نمبر 21 ہے۔اسے قائد اعظم اسٹریٹ بھی کہا جاتا ہے۔یہ پہلے آنے والا گھر نکڑ کا ہے۔اس کا گیٹ چھوٹا سا سبز رنگ کا ہے۔یہاں رہنے والے کرائے یا گروی پر آباد ہیں۔انہیں اس علاقے میں کوئی نہیں جانتا اور یہ قادیانیوں کے ایڈز مشن پر ہیں۔
کبھی روزنامہ"خبریں"کا کلاسیفائیڈ دیکھیں۔اس میں تبدیلی نام اور ولدیت کے بہت سے اشتہارات موجود ہوتے ہیں۔یہ دراصل دوسرے لوگوں کی اسناد کو استعمال کرنے کا منصوبہ ہے۔(2005ءسےاب تک کے اخبارات ضرور دیکھیں)۔کیا کسی اور اخبار میں تبدیلی نام اور ولدیت کے اس قدر اشتہارات دیکھے گئے ہیں؟مشرف دور میں بورڈ کے سیکریٹری ان کے غلام تھے۔جس  شخص کو سند دلوانا ہوتی ہے، کمپیوٹر پر اس کی ولدیت سے ملتی جلتی ولدیت کو سرچ کیا جاتا ہے۔بعد ازاں نام کو اشتہار شائع کر کے تبدیل کروالیا جاتا ہے۔اس طریقے سے لوگوں کے نامعلوم گروہ (ممکنہ طور پر قادیانی)کو ڈپلیکیٹ اسناد کی بہت بڑی تعداد جاری کی اور ملازمتیں دلوائی جاتی رہی ہیں۔ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو پولیس میں کانسٹیبل بھرتی کروایا گیا ہے، تاکہ ہر علاقے میں موجود اپنے قحبہ خانوں ، جوس کارنرز کی مدد اور انتہا پسندوں کی نشاندہی کی جا سکے۔ایسے لوگ اپنے نام اور ولدیت سے بظاہر مسلمان ہی لگتے ہیں، کوئی ان پر شک کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اسی کلاسیفائیڈ سیکشن میں آپ کو قرضہ مہیا کرنے والے بہت سے اداروں کے اشتہارات ملیں گے۔یہ بھی معاشی طور پر مجبور لوگوں کو استعمال کرنے کی کوشش ہے، حالانکہ قانوناً اس قسم کے اشتہارات ممنوع ہیں۔ان لوگوں کے پاس بے شمار شناختی دستاویات موجود ہوتی ہیں۔جنہیں بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔
اسی روزنامہ میں ضرورت رشتہ کے مخصوص اشتہارات بھی زرا غور سے دیکھیں۔خاص طور پر "فارن نیشنلٹی" کے حامل اشتہارات۔2005ء سے 2008ء تک ضرورتِ رشتہ کا ایک ہی اشتہار شائع ہوتا رہا۔اس اشتہار کی آڑ میں بہت سی مذموم سرگرمیاں جاری ہیں۔اب بھی کبھی کبھار یہ اشتہار شائع ہوتا رہتا ہے۔مجھے بھی متعدد مرتبہ یورپین ممالک کی سیر اور عمرے پر لے جانے کی پیشکش کی گئی تھی جسے میں نے مسترد کر دیا تھا۔
مسلمان کو تباہ کرنے کی لڑائی کے تیسرے مرحلے میں یہ لوگ سرکاری ہسپتالوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔بہت سے سرکاری ہسپتال کافی حد تک ان کے کنٹرول میں ہیں بھی۔خاص طور پر شالامار ہسپتال ، جنرل ہسپتال ، شیخ زاہد ہسپتال وغیرہ۔المیہ یہ ہے کہ یہ کنٹرول نچلے لیول پر ہے۔حکومت زیادہ سے زیادہ ایم ایس یا پرنسپل کو تبدیل کرتی ہے جس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔بعض ہسپتالوں میں علاج کے نام پر بھی لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ٹارگٹ کو پہلےبیمار یا زخمی کیا جاتا ہے اور بعد میں علاج کے نام پر پار کر دیا جاتا ہے۔میں اس قسم کے ایک واقعے سے آگاہ ہوں جو شالامار ہسپتال میں ہوا۔مختلف جراثیم کو حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ شالامار ہسپتال ہے۔جہاں لاہور کے تمام ہسپتالوں سے ویسٹ کو انسیی ریٹر میں جلانے کے لیے لایا جاتا ہے۔جلانے سے قبل اس ویسٹ میں مختلف بیماریوں کے جراثیم جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے حاصل کر لیے جاتے ہیں۔اس وقت شالامار ہسپتال کا چیف ایگزیکٹو بھی قادیانی ہے۔یہ بات بھی مدنظر رکھیں کہ مختلف حیلے بہانوں سے امریکی ڈاکٹروں کی سب سے زیادہ آمد شالامار ہسپتال میں ہی ہے۔کسی بھی دوسرے سرکاری یا غیر سرکاری ہسپتال میں امریکیوں یا غیر ملکیوں کی اس قدر زیادہ آمد کا کوئی سراغ دور دور تک نہیں ملتا۔یہ ڈاکٹر پاکستانیوں کے خلاف بائیولوجیکل لڑائی میں مدد دینے کے لیے آتے ہیں۔پنجاب میڈیکل کالج سے قادیانی ڈاکٹروں کے اخراج کے بعد شالامار ہسپتال میں میڈیکل کالج قائم کیا جارہا ہے، تاکہ قصاب نما قادیانی یا بظاہر مسلمان نما قادیانی ڈاکٹر وافر مقدار میں تیار کیے جا سکیں۔اس میڈیکل کالج کا پروجیکٹ ڈایریکٹر بھی قادیانی ہے۔
یہ لوگ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ان میں سے ایک کوشش ایک طلبہ تنظیم کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی پر قبضہ کرنے کی تھی جسے جمعیت نے ناکام بنادیا تھا۔اسی طرح سی آئی اے اور قادیانیوں کی کوشش ہے کہ پولیس ٹریننگ اسکولوں میں بھی اپنے افراد داخل کیے جائیں۔ان کا خیال ہے کہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بڑے تعلیمی اور تربیتی مراکز پر کنٹرول ہونا ضروری ہے۔اس حکمت عملی کے ذریعے بھارت نے مشرقی پاکستان کو جدا کیا تھا۔بقیہ پاکستان پر کنٹرول کے لیے بھی یہی حکمتِ عملی استعمال کی جار ہی ہے۔
چونکہ میں اپنی ہی قوم اور وطن کے خلاف اس خوفناک لڑائی کا حصہ نہیں بننا چاہتا ، اس لیے ان لوگوں کے خیال میں ، میں انتہا پسند ہوں۔میں نے متعدد نقصانات برداشت کیے ہیں لیکن متعدد مرتبہ آفر کے باوجود قادیانیت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ایسا کبھی نہیں کروں گا۔اس کی پاداش میں مجھے متعدد مرتبہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔اس مقصد کے لیے بہت بےضرر طریقے اختیار کرنے کو کوشش کی جاتی ہے۔کبھی سابقہ دُشمنی کی آڑ میں کسی شخص کو ختم کر دیا جاتا ہے اور کبھی کسی کو حادثے میں پار کر دیا جاتا ہے۔میں خود ان حربوں کا سامنا کر چکا ہوں اور میرا زندہ رہنا اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ ابھی آسمان پر موجود ہے۔یہ لوگ میٹھے زہر کی طرح پاکستان کے رگ و پے میں اُتر رہے ہیں۔یہ پاکستان کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتے ہیں اور یہ سوچنے کا تکلف ہر گز مت کیجے گا کہ یہ سب کچھ نہیں ہورہا۔جو قوم جنگ جیتنے کے لیے ہنستے بسے شہروں پر ایٹم بم گرا سکتی ہے، وہ پاکستان میں جنگ جیتنے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتی ہے۔بارک اوباما کو تبدیلی کی علامت کہا جاتا ہے۔میں نے ایک پاکستانی نہیں ، بلکہ بین الاقوامی معاشے کے درد مند کی حیثیت انہیں خط لکھا ہے جس میں ان سے اپیل کی گئی ہے کہ بے گناہ پاکستانیوں کی بدترین نسل کشی کو روکیں۔
دردست منظر پر آنا مقصود نہیں  اس لیے نام کا دوسرا حرف مکمل نہیں لکھ رہا ہوں، لیکن اگر مجھے مارا گیا تو اس کے ذمہ دار پاکستان کے قادیانی ہوں گے ، اور میری شناخت اور مزید اہم تفصیلات منظر عام پر ضرور آئیں گی۔"
یاسر ع ، لاہور

دُعا اور دوا
تو یہ ہے جناب ! ایک بے راہ اور نوجوان کی آپ بیتی۔وہ جب نفس پرستی کی بے آب و گیاہ وادیوں میں بھٹکتے بھٹکتے تنگ آگیا تو اس کے اندر موجود نیک فطرت نے اسے مجبور کیا کہ وہ ان لوگوں کو بے نقاب کر کے اپنی لغزشوں کا کسی حد تک کفارہ دے جو وطن عزیز کو مہلک بیماریوں اور موذی جراثیم کا تحفہ دے کر اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔
راقم الحروف نے جب یہ خط لاہور کے بعض احباب کو بھیجا تو انہوں نے تصدیق کی کہ متذکرہ جگہیں واقعی مشکوک اور تہمت زدہ معلوم ہوتی ہیں۔اتنا قرینہ ملنے کے بعد موقع واردات کا مشاہدہ ضروری ٹھہرا۔ خط میں جو انکشافات کیے گئے تھے، ان میں سے اکثر تحقیق کے بعد درست نکلے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بقیہ باتیں بھی جن تک ہماری رسائی نہ ہوسکی ، کسی خبطی دیوانے کی بڑ یا شہرت کے خوہش مند توجہ سے محروم بے روزگار نوجوان کے من گھڑت خیالات نہیں، یہ بھی درست ہی ہوں گے۔تحقیق کی ابتدا جب ہوئی تو رمضآن کا مہینہ تھا۔متذکرہ کلینک میں عین رمضان کے دن ایک جاہل قصاب نما ڈاکٹر صاحب نشے کی حالت میں بیٹھے ہوئےتھے۔یہ جگہ دکھی انسانوں کی علاج گاہ نہ تھی، معصوم بچوں کی قتل گاہ تھی۔جب کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی سے غلطی سرزد ہوجاتی تھی تو وہ اس کا نشان مٹانے اور معصوم جان کو از قبل پیدائش زندہ درگور کرنے کے لیے یہاں موجود جاہل قصابوں کی خدمات حاصل کرتا تھا۔یہ کلینک میٹرنٹی ہوم کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔کلینک کیا تھا، بس ایک دکان تھی جسے اس شیطانی کام کے لیے درکار مخصوص سہولتوں سے آراستہ کر دیا گیا تھا۔معلوم ہوا کہ لاہور کے ٹمپل روڈ پر"صفیہ کلینک" میں شادی سے قبل صاحبِ اولاد ہو جانے والے جوڑوں کے لیے پیش کی جانے والی مخصوص خدمات یہ کلینک بھی پیش کرتا ہے۔وہ بے راہ رو جو گناہ سے توبہ کے بجائے ایک نیا گناہ کرنے کے لیے پُر عزم ہوں ان کے لیے یہاں ہر طرح کی سہولتیں سستے داموں دستیاب ہیں۔ہمارے احباب کلینک کے سامنے گاڑی میں یوں بیٹھے رہے کہ کلینک کے اندر کا ماحول نظر آتا رہے اور ایک ساتھی فرضی گنہگار بن کر مسکین صورت اور عاجزانہ گفتگو کے ساتھ اپنی غربت کا رونا روتے ہوئے اندر بیٹھے جاہل قصائی کے ساتھ پیسے کم کروانے کے لیے حجت کرتا رہا۔آخری اطلاع کے مطابق اس قصاب خانے کا شٹر اکثر آدھا گرا ہوا رہتا ہے۔مصروف کار افراد یا گروہ محتاط ہوگیا ہے اور آنے والے کو پہلوان پورہ میں رزاق اسٹور کے ساتھ واقع لیڈیز کلینک جانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔اب نہیں معلوم کہ متذکرہ دو کلینک بھی اس خفیہ مشن سے وابستہ ہیں یا اپنے طور سے بداعمالیوں کے اس گورکھ دھندے میں ملوث ہوگئے ہیں؟
صدیقی کلینک کے بعد گشت کی اگلی منزل "حسن جوس کارنر" تھا۔اس کا نام پہلے "رحمٰن جوس کارنر " تھا ۔پھر بدل کر "حسن جوس کارنر " رکھ دیا گیا۔نام جتنے خوبصورت ہیں، پھندا اتنا ہی خطرناک ہے۔اس میں آپ داخل ہوں تو بظاہر جوس اور اس کے لوازمات چاٹ ، برگر وغیرہ دکھائی دیں گے۔۔۔۔لیکن درحقیقت یہ نوجواں نسل کو ناجائز تنہائیاں مہیا کرنے کا اڈہ رہا ہے۔اس کی دوسری منزل پر تقریباً دس کیبن بنے ہوئے ہیں۔ان کیبنوں کے نیم تاریک ماحول میں شیطانی اٹھکھیلیاں عفت و حیا کے دامن کو تار تار کرتی ہیں۔یہاں کے بیرے مخصوص انداز سے تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور کسی کی تنہائی میں مخل نہیں ہوتے۔یہاں پیش کیا جانے والا جوس اور دیگر لوازمات گھٹیا ہونے کے باوجود مہنگے ہوتے ہیں کیونکہ اصل قیمت تو حرام خلوتوں کا عوض ہوتی ہے۔آخری اطلاع کے مطابق "حسن جوس کارنر" والے بھی محتاط ہوگئے ہیں اور اب یہ دھندا "شالامار ہسپتال"کے سامنے چاہت جوس کارنر ، گڑھی شاہو میں "کوئن میری کالج" سے پہلے شوروم کے ساتھ واقع جوس کارنر اور دھرم پور کے ایک بیسمنٹ میں چل رہا ہے۔جہاں ہماری قوم کے نونہال گھروں سے تعلیم کے لیے نکلتے ہیں لیکن فلموں اور موبائلوں کی فتنہ پرور شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان شیطانی گھروں میں تاریخیں لگوانے جاتے ہیں۔اس میدان میں نیرنگ کیفے ، گلوریہ جین اور ایسپر یسو جیسے مغربی انداز کے جدید مراکز بھی کود پڑے ہیں اور حکمرانوں کے ناک تلے شہوت گردی کے یہ اڈے دجالی مشن کے فروغ میں مصروف ہیں۔اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے سب کے سب جوس کارنرز اور ریسٹورنٹ کسی خفیہ ہاتھ کے اشاے پر چل رہے ہیں۔عین ممکن ہے کہ بعض نادان زیادہ آمدنی کے لالچ میں مشروبات کے حلال کاروبار میں حرام تنہائیوں کی آمیزش کرتے ہوں ، لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ نوجوان نسل کی عفت و عصمت کا گلا یہیں گھٹتا ہے اور ان کا روشن مستقبل یہاں کی نیم تارک فضا میں مکمل تاریک اندھیریوں میں دفن ہوتا ہے۔انٹرنیٹ کیفے سے شروع ہونے والی ناجائز دوستیاں یہاں پروان چڑھتی ہیں اور حیا و پاکدامنی کو لیرا لیرا کرکے اپنے پیچھے ایمانی جذبات سے محروم کھوکھلے جسم ، حوصلہ سے عاری مفلوج دماغ اور عقابوں کے نشیمن میں اجڑی ویران زندگیاں چھوڑجاتی ہیں۔دہائی ہے کہ میری قوم کے محافظ سو رہے ہیں اور ڈاکو کھلے پھر رہے ہیں۔
گمنام نوجوان کے اس خط میں ایک معاصر اخبار کے حوالے سے جن اشتہاری قلمی دوستیوں کا ذکر کیا گیا تھا ان کی تو تحقیق کی بھی ضرورت نہیں۔آپ آج ہی کا خبریں اُٹھائیں۔اس میں کھلم کھلا بے حیائی کا فروغ اس ڈھٹائی کے ساتھ ہے کہ اشتہارات کے الفاظ میں بھی کسی شرم مروت ، کسی طرح کی ڈھکائی چھپائی کا لحاظ نہیں۔کھوج پر مامور احباب نے بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے دیے گئے فون کے دوسری طرف مادر پدر آزاد لوگوں کا پورا گروپ بیٹھا ہے جو انسانی نفس کی غلیظ چاہتوں کو حسب منشا پوری کرنے کے لیے ہر طرح کی حرام زدگیوں کو فروغ دے رہا ہے اور اسے  کوئی پوچھنے والا نہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فون پر دوستی ، پھر جوس کارنروں میں ملاقاتوں سے جو شیطانی سلسلہ شروع ہوتا ہے، پوش علاقوں میں واقع خفیہ قحبہ خانوں سے ہوتا ہوا اس کا اختتام قصاب نما ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں کھیلنے تک آ پہنچتا ہے۔اس سارے ابلیسی نظام کی کڑیاں ایک دوسرے سے ملتی ہیں جسے دشمنانِ انسانیت اپنے مقامی ہرکاروں کی مدد سے مربوط انداز میں چلا رہے ہیں اور دن دیہاڑے ہمارے معصوم بچوں کو تباہی و بربادی کے اس جہنم میں جھونک رہے ہیں۔
میں حیران ہوں میری قوم کے رکھوالے کہاں ہیں؟دشمن کے چھوڑے ہوئے ضمیر فروش ایجنٹ نئی نسل کو گھن کو طرح چاٹ رہے ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار لمبی تان کر سو رہے ہیں۔اوپر جو اشارے اور سراغ دیے گئے ہیں ان پر کام کر کے کوئی بھی محب وطن آفیسر اس سازش کے ذمہ داروں تک پہنچ سکتا ہے۔انسان پر لازم ہے کہ غیرت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔ہم آخر یہ کیوں برداشت کر رہے ہیں کہ ہمارے معصوم بچوں کو شیطانی حرکتوں کے ذریعے اپاہج اور ناکارہ بنایا جائے اور ہم آنکھیں بند کر کے لاتعلق رہیں۔اس طرح تو دجالی قوتیں ایک دن ہماری دہلیز پر آپہنچیں گی۔ہماری نظروں کے سامنے ہمارے گلشن کے پھول اور چمن کی کلیوں کو شیطان کے نمایندے غیر انسانی حرکتوں میں مبتلا کریں گے اور ہم اس فتنے میں بہتے جانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکیں گے۔
دجال کا شیطنت اور دجل کو غالب دیکھنے والوں کا برپا کردہ فتنہ جتنا بھی شرانگیز ہو، اس کے مقابلے میں کوشش کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور انعام کے وعدے بھی اتنے ہی عظیم ہیں۔ہمیں شرپسند اور فتنہ پرور دجالی قوتوں کے سامنے ہرگز ہتھیار نہیں ڈالنے چاہییں۔نجانے کس کی قربانی رب العزت کو پسند آجائے اور وہ اسے بھی دنیا اور آخرت میں سرخ روئی اور سرفرازی سے نواز دے اور اسکی وجہ سے دوسروں کا بھی بھلا ہو جائے۔

مفتی ابولبابہ شاہ منصور

دجالی ریاست کے قیام کے لیے جسمانی تسخیر کی کوششیں

دوسری قسط

دجال کے سائے

ایک بگڑے نوجوان کی آپ بیتی

دجال کے ہرکاروں اور دشمنانِ انسانیت کے کالے کر توت ، اسرائیل سے قادیان تک پھیلی ہوئی ابلیسی تحریک

پاکستان کے خلاف حیاتیاتی جنگ

یہ جولائی 2007ء کی بات ہے۔لاہور کا ایک خوبرو نوجوان شہزاد ملک کے ایک مشہور و معروف قومی اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔اخبار کے ورق الٹتے ہوئے اچانک اس کی نظر کلاسیفائیڈ اشتہارات پر پڑی۔پھر ان میں سے ایک اشتہار پر اس کی نگاہیں گڑ کر رہ گئیں:"دوستیاں کیجئے۔۔۔۔کامیاب بنیے"اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ ہر نوجوان دیے گئے رابطہ نمبروں پر کال کر کے نئے دوست تلاش کر سکتا ہے۔جو لڑکے بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکیاں بھی۔۔۔۔۔یہ نئے تعلقات اس کی زندگی میں نئی جان ڈال دیںگے۔
شہزاد ان دنوں ویسے بھی فارغ تھا۔اس کی زندگی بے مزہ گزر رہی تھی۔ایسے اشتہارات اس نے پہلے بھی دیکھے تھے مگر اب اس نے پہلی بار انہیں آزمانے کا ارادہ کیا۔اس نے اشتہار میں دیے گئے نمبروں پر رابطہ کیا۔اس رابطے کے نتیجے میں اسے کئی لڑکوں اور لڑکیوں کا تعارف کرایا گیا۔ان کے فون نمبرز دیے گئے۔شہزاد نے ان میں سے ایک لڑکی "روحی" کو دوستی کے لیے منتخب کیا اور اس کے نمبر پر کال کی۔دونوں میں ہیلو ہائے ہوئی۔پھر باقاعدہ ملاقات کے لیے جگہ کا تعین ہوا۔لڑکی نے خود بتایا کہ وہ لاہور کے فلاں جوس سینٹر میں مل سکتی ہے۔
شہزاد وہاں پہنچ گیا۔اس طرح روحی سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔اس ملاقات نے اسے ایک نئی دنیا کی سیر کرائی۔عیش و عیاشی کی دنیا ، رنگ رلیوں کی دنیا ، جہاں شرم و حیا نامی کوئی شے نہیں ہوتی۔روحی اس دنیا  میں داخلے کا درواذہ تھی۔آگے لڑکیوں کی ایک لمبی قطار تھی۔شہزاد کی دوستیاں بڑھتی چلی گئیں۔اسے ہوش تب آیا جب اسے جسم میں شدید توڑ پھوڑ کا احساس ہوا۔اس نے ڈاکٹروں سے معاینہ کروایا تو پتا چلا کہ وہ ایڈز کا مریض بن چکا ہے۔شہزاد کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔کہ وہ اپنا علاج کراتا۔تب انہیں گروہ کے سرکردہ افراد نے علاج کی پیش کش کی مگر شرط یہ تھی کہ وہ ان کے گروہ کے لیے کام کرے۔شہزاد کو موت سامنے نظر آرہی تھی۔وہ ہر خطرناک سے خطرناک اور ناجائز سے ناجائز کام کے لیے تیار ہوگیا۔ویسے بھی حلال و حرام کا فرق تو وہ کب کا بھول چکا تھا۔گروہ کے منتظمین خود سات پردوں میں تھے۔وہ شہزاد کو اپنی لڑکیوں کے ذریعے مختلف کام بتاتے تھے۔یہ کام عجیب و غریب تھے۔شہزاد ایک پڑھا لکھا اور ذہین نوجوان تھا۔جلد ہی وہ گروہ کے کاموں کو خاصی حد تک سمجھ گیا۔گروہ کے منصوبے آہستہ آہستہ اس پر عیاں ہونے لگے۔یہ منصوبے بے حد خوفناک تھے۔یہ گروہ ملک میں ایڈز کا وائرس پھیلا رہا تھا۔ہیپاٹائٹس سی کی بیماری کو فروغ دے رہا تھا۔ہزاروں افراد اس کا نشانہ بن چکے تھے۔آزاد خیال نوجوان ، ہسپتالوں کے مریض اور جیلوں کے قیدی اس کا خاص ہدف تھے۔آزاد خیال نوجوانوں کو دوستی کے اشتہارات کے ذریعے پھنسایا جاتا تھا۔یہ اشتہارات میڈیا میں مختلف عنوانات سے آرہے تھے۔ان کے ذریعے نوجوانوں کا تعلق جن لڑکیوں سے ہوتا تھا وہ ایڈز اور دوسری مہلک بیماری میں مبتلا تھیں۔ان سراپا بیمار عورتوں کو مختلف این جی اوز سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ان عورتوں کی بیماری اس درجے کی تھی کہ ان کے ساتھ اختلاط سے بھی انسان ایڈز میں مبتلا ہو سکتا تھا، مگر گروہ کے لوگ اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ان کا انتظام اتنا پختہ تھا کہ لڑکی سے پہلی ملاقات کے وقت نوجوان جو مشروب (جوس، کولڈ ڈرنک یا شراب)پیتا تھا، اس میں پہلے سے خطرناک جراثیم ملا دیے جاتے تھے۔ایڈز کی کئی مریضائیں معقول علاج ، بہتر معاوضے اور عیش و عشرت کی چند گھڑیوں کے عوض اس گروہ کے لیے یہ کام کرتی تھیں ، جبکہ بہت سی عورتیں جومجبور ہو کر یہ کام کر رہی تھیں کیونکہ ان کے بچے اس گروہ کے قبضے میں تھے۔ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ احکام کی تعمیل کرتی رہیں۔ایڈز پھیلاتی رہیں تو ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر ان کا مستقبل شاندار بنا دیا جائے گا۔
ان بے فکرے نوجوانوں کے علاوہ ہسپتالوں ، پاگل خانوں اور جیل خانوں کے مریض ان کا دوسرا ہدف تھے۔یہ گروہ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاکھوں سرنجیں پھیلا رہا تھا جو ایڈز یا ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے خون سے آلودہ ہوتی تھیں۔کئی بڑے ہسپتالوں میں اس گروہ کے ایجنٹ موجود تھے۔وہاں آنے والی سرنجوں میں یہ ایڈز اور ہیپا ٹائٹس زدہ سرنجیں ایک مخصوص تناسب سے ملی ہوتی تھیں۔اتنی سرنجوں کو آلودہ کرنے کے لیے گروہ نے پاگل خانوں میں سرگرم اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاگل افراد کو اپنا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ان کو ایڈز یا ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا کرنے کے بعد ان کا خون بڑی مقدار میں نکالتے رہنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
گروہ کا تیسرا ہدف جیل کے قیدی تھے۔ان میں سے کم مدت کی سزا پانے والے حد درجے منفی اور لادینی ذہنیت رکھنے والے قیدیوں کو خاص تجزیے کے بعد منتخب کرکے علاج کے بہانے ایڈز زدہ کر دیا جاتا تھا۔جب یہ قیدی رہا ہوئے تو بیماری کے باعث ان کا کوئی مستقبل نہ ہوتا تھا۔یہ گروہ ان سے رابطہ کر کے انہیں اپنا رضاکار بنا لیتا تھا۔یہ قیدی ویسے ہی تخریبی ذہن کے ہوتے تھے ۔اپنی محرومیوں کا دنیا سے بدلہ لینے کےلیے وہ ایڈز پھیلانے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔انہیں کانوں کان یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ انہیں ایڈز میں مبتلا کرنے والے"مہربان" یہی ہیں۔
گروہ کا ایک خاص کام دوسرے لوگوں کی اسناد کو اپنے کارکنوں کے لیے استعمال کرنا تھا۔اس مقصد کے لیے اخبارات میں تبدیلی نام اور ولدیت کے اشتہارات شائع کردیے جاتے۔گروہ کے کسی کارکن کو کسی ملازمت کے لیے جو مطلوبہ سند درکار ہوتی ، اس کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ پہلے کمپیوٹر پر اپنے کارکن کی ولدیت سے ملتے جلتے نام والی ولدیت سرچ کی جاتی۔مثلاً:ظفر ولد جمیل کو کہیں بھرتی کرانا ہوتا تو نیٹ سے جمیل نام کی ولدیت رکھنے والے افراد کی فہرست حاصل کر لی جاتی۔پھر ظفر کا تبدیلئ نام کا اشتہار شائع کرا کے تبدیل کردیا جاتا۔اس طریقے سے گروہ کے ان گنت افراد کو ڈپلی کیٹ اسناد دلوا کر پولیس ، خفیہ ایجنسیوں اور فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا۔جیل خانوں ، ہسپتالوں اور پاگل خانوں میں بھی ان کی خاصی تعداد پہنچا دی گئی تھی۔
گروہ کی آمدن کے کئی ذرائع تھے۔شہزاد کو اتنا معلوم ہوسکا کہ بڑی گرانٹ اسے باہر سے ملتی ہے۔دیگر ذرائع خفیہ تھے۔البتہ ایک ذریعہ آمدن بہت واضع تھا۔وہ ایڈز اور دوسرے مہلک امراض کی ادویہ کی تجارت کا۔ایک طرف تو خود یہ گروہ ان امراض کو پھیلا رہا تھا اور دوسری طرف ان کی ادویات منہ مانگے داموں فروخت کر کے بے تحاشہ دولت کما رہا تھا۔
ایک مدت تک شہزاد بھی اپنا دین و ایمان بھول کر اس گروہ کے لیے کام کرتا رہا۔یہاں تک کہ وہ ان کے قابل اعتماد کارکنوں میں شامل ہو گیا۔تب ایک دن گروہ کے سرکردہ افراد نے اسے طلب کیا اور حیرت انگیز حد تک پرکشش مراعات کی پیش کش کی مگر ساتھ ہی ایک غیر متوقع مطالبہ بھی کیا۔
"تم قادیانی بن جاؤ۔مرزا غلام احمد قادیانی کو آخری نبی مان لو۔"شہزاد ہکا بکا رہ گیا۔آج اسے معلوم ہوا کہ یہ گروہ قادیانی ہے۔اس نے سوچنے کی مہلت طلب کی اور اس کے بعد مزید کھوج میں لگ گیا۔اس جستجو میں گروہ کی ایک پرانی کارکن"روبینہ " نے اس کی مدد کی۔روبینہ نے جو انکشافات کیے وہ شہزاد کےلیے کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں تھے۔اس نے بتایا:"بلاشبہ یہ قادیانی گروہ ہے مگر اکیلا نہیں۔یہ ایک بیرونی خفیہ ایجنسی کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔یہ کام ایک وسیع جنگ کے تناظر میں ہو رہا ہے۔اسے ہم حیاتیاتی جنگ کہہ سکتے ہیں"
قارئین ! شہزاد کی یہ سچی کہانی پڑھ کر میں لرز گیا ہوں۔میں اس پر یقین نہ کرتا شاید آپ بھی اسے سچ ماننے میں متذبذب ہوں۔کیونکہ یہ بات حلق سے اُترنا واقعی مشکل ہے کہ آیا کوئی گروہ بلا تفریق لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کو اس طرح خفیہ انداز میں قتل کرنا کیوں چاہے گا؟امریکا کی جنگ تو مجاہدین سے ہے۔قادیانیوں کی لڑائی تو علماء اور ختمِ نبوت والوں سے ہے۔انہیں عوام کے اس قتلِ عام سے کیا حاصل ہوگا؟شہزاد کی کہانی میں اس کا جواب نہیں ملتا، مگر اس کا جواب خود یورپی میڈیا پر آنے والی رپورٹوں سے مل سکتا ہے۔ان رپورٹوں کے مطابق اس وقت یورپ اور امریکا میں انسانی آبادی تیزی سے نمٹنے کا خطرہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔وہاں کے"فری سیکس" معاشرے میں اب کوئی عورت ماں بننا چاہتی ہے نہ کوئی مرد باپ۔تقریباً ہر فرد کا یہ ذہن بن چکا ہے جب جنسی تسکین کے لیے آزاد راستے موجود ہیں تو شادی کا بندھن اور بچوں کا جھنجھٹ سر کیوں لیا جائے؟اس بظاہر پُر فریب خیال کے پیچھے اجتماعی خود کشی کا طوفان چلا آرہا ہے۔جس قوم کے اکثر لوگ بچے پیدا نہ کرنا چاہتے ہوں۔وہاں شرح پیدائش کیوں کم نہ ہوگی؟چنانچہ وہاں اب آبادی تیزی سے نمٹنے لگی ہے۔سابق امریکی صدارتی اُمیدوار پیٹرک جے بچا چن نے واضح طور پر لکھا ہے:"2050ء تک یورپ سے دس کروڑ افراد صرف اس لیے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نئی نسل پیدا نہیں ہوگی۔"اس نے لکھا ہے:"2050ء تک جرمنی کی آبادی8 کروڑ سے گھٹ کر 5 کروڑ 90 لاکھ رہ جائے گی۔اٹلی کی آبادی 5کروڑ سے کم ہو کر صرف 4 کروڑ رہ جائے گی۔اسپین کی آبادی میں 25 فیصد کمی ہو جائے گی۔"
یہ وہ صورتِ حال ہے جس سے گھبرا کر مغربی دنیا کی حکومتیں عوام کی افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہو گئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب کسی بھی قیمت پر یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے۔کوئی بڑے سے بڑا انعام انہیں بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں بنا سکتا۔یہ بات درجہ یقین کو پہنچ گئی ہے کہ اس صورتِ حال کا تدارک نہ ہونے کے باعث 50، 60 سال بعد دنیا میں عیسائی اقلیت میں رہ جائیں گے اور کرۂ ارض پر  60 سے 65 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہوگی جو اپنی نسل مسلسل بڑھا رہے ہیں۔خود یورپی ممالک میں کئی بڑے بڑے شہروں میں مسلم آبادی 50 فیصد کے لگ بھگ آجائے گی۔اس صورتِ حال میں مغربی طاقتوں نے اپنے ہاں افزائش نسل سے زیادہ توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پر دینا شروع کر دی ہے۔پاکستان کو اس مقصد کے لیے پہلا ہدف اس لیے بنایا گیا ہے کہ یہ مسلم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تین بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔پھر یہاں کی آبادی اپنی اسلام پسندی ، علماء و مدارس کی کثرت اور جہادی پس منظر کی وجہ سے پہلے ہی مغرب کا خاص ہدف ہے۔اس کے علاوہ یہاں مغرب کے مددگار قادیانیوں کا مضبوط نیٹ ورک ہے۔چنانچہ یہودی لابی اس مقصد کے لیے متحرک ہوگئی ہے۔اس کے لیے پاکستان کے قادیانی اس کے شریک کاربن گئے ہیں۔شہزاد جیسے ہزاروں لڑکے اور روحی جیسی ہزاروں لڑکیاں ان کے چنگل میں ہیں۔اپنے ایڈز زدہ جسموں کےساتھ وہ طوعاً و کرہاً ان کے لیےکام کر رہے ہیں۔
شہزاد کے بیان کے مطابق قادیانی گروہ ایک بیرونی خفیہ ایجنسی کے اس تعاون کو پاکستان کے سیکیورٹی اہداف کے خلاف بھی استعمال کر رہا ہے۔جراثیم زدہ لڑکیوں کا نیٹ ورک ملٹری فورسز اور دوسرے خفیہ اداروں کے محب وطن افراد تک پھیلانے کی کوششیں پوری سرگرمی سے جاری ہیں۔جن کا نوٹس لینا ضروری ہے۔
مجھے یہ حساس ترین معلومات دیتے ہوئے شہزاد نے واضح طور پر آگاہ کیا کہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔قادیانیوں نے اسے مرزا پر ایمان لانے کی پیشکش کر کے اس کی سوئی ہوئی ایمانی غیرت کو جھنجھوڑ دیا تھا۔شہزاد نے ان کی پیش کش ان کے منہ پردے ماری اور اس گروہ کی جڑوں کو کھود کر ان کا کچا چٹھا صحافی برادری تک پہنچا دیا۔شہزاد اپنا کام کرچکا ، اب اس کاجو بھی انجام ہو وہ بھگتنے کے لیے تیار ہے۔میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ حقائق آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
ہم چیف جسٹس ، چیف آف آرمی اسٹاف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بطور خاص گزارش کرتے ہیں کہ اس بارے میں تحقیقات کرکے پاکستانیوں کی نسل کشی کے اس خوفناک منصوبے کو ناکام بنائیں۔ورنہ مستقبل میں جہاں آبادی سے محروم یورپ و امریکا خودکشی کریں گے وہاں پاکستان بھی لق و دق صحرا بن کر اپنی پہچان سے محروم ہو جائے گا۔اللہ تعالیٰ اس برے وقت سے پہلے ہمیں سنبھلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آپ دوستو سے گزارش ہے کہ اخبارات اور چینلوں پر آنے والے دوستی کے اشتہارات پر نظر رکھیں اور ان کے خطرات سے اپنے متعلقہ احباب کو خبردار کریں۔"

شہزاد کی یہ کہانی مجھے ملک کے ایک معروف لکھاری اور مصنف نے لکھ کر بھیجی کہ آپ کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے ، اسے شائع کر دیجیے۔میں ان سے اصرار کیا کہ میں کہانی کے اصل کردار اور راوی ملنا چاہتا ہوں۔انہوں نے تلاش کے بعد بتایا کہ وہ رابطے میں نہیں ہے۔بھیس بدل کر مفروروں جیسی زندگی گزار رہا ہے۔اس پر میں نے مطالبہ کیا کہ اس کا اصل خط بھیجا جائے۔انہوں نے اصل خط روانہ کر دیا۔میں نے بنظر غائر کئی مرتبہ اس کا مطالعہ کیا اور قیافہ شناسی کے جو گُر آتے تھے انہیں بروئے کار لاتے ہوئے نقل و اصل میں فرق اور داستان و زیب داستان میں امتیاز کی بھر پورکوشش کی۔سچ کا پلڑا بھاری محسوس ہوتا تھا۔لیکن مبینہ حقائق و واقعات اتنے تہلکہ خیز تھے اور بہت سے ایسے چہروں سے پردہ اُٹھتا کہ زلزلہ آجاتا۔زلزلے کے یہ جھٹکے اتنے لطف آور اور حوصلہ آزما ہوتے کہ ان کا دیا ہوا جھولا جھولنے کی پہلے سے تیاری ضروری قرار پاتی تھی۔لہذا بندہ نے یہ خط لاہور بھیج دیا۔وہاں کے کچھ اللہ والوں نے جب خط میں نشان زدہ جگہوں کا گشت کیا تو انہیں بھی حقیقت کا شبہ ، گمان کے اندیشے پر غالب محسوس ہوا۔اس پر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ خود موقع واردات پر جانا چاہیے اور جائے وقوعہ پر پہنچ کر شواہد قرائن اکٹھے کرنے چاہییں تاکہ سند رہیں اور بوقت ضرورت کام آہیں۔کہانی کی سچائی کو زمینی حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کا عمل بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔۔۔۔۔لیکن اسلام اور پاکستان کے خلاف مصروف کار ان بھڑوں کا ڈنک اس کے بغیر نکالنا بھی ممکن نہ تھا۔لہذا بندہ نے اللہ کا نام لیا، رخت سفر باندھا اور لاہور جا پہنچا۔شہر زندہ دلانِ لاہور میں کیا کچھ بدتمیزیاں ہو رہی تھیں اور کیسی کچھ بد تہذیبی کا طوفان برپا کیا گیا تھا، یہ داستان المناک بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔اگر ایمان کی رمق انسان میں باقی ہو اور غیرت کی چنگاری بالکل بجھ نہ گئی تو یہ پڑھنے سننے والے کو اس داستان کے مکروہ کرداروں کے خلاف اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔یہ ہمارے ایمان و غیرت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے تحفظ و بقا کا مسئلہ بھی۔موقع واردات پر کیا کچھ دیکھا؟یہ آپ کو پوری طرھ سمجھ نہ آئے گا۔جب تک آپ اس گمنام نوجوان کا خط نہ پڑھ لیں۔لہذا پہلے یہ خط ملاحظہ فرمایئے پھر چند مصدقہ مشاہداتی اطلاعات ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز پر"دجال کے سائے" پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔تاریکی کے یہ سائے اہلِ وطن کا امتحان ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے خیر کی دعوت و اشاعت کے ذریعے نور حق کی کرنیں پھیلانا ہمارے لیے ایک زبردست چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔