توحید باری تعالٰی کا
عقیدہ ان مسلمات میں سے ہے جن پر نہ صرف اہل شرائع کا اتفاق ہے ، بلکہ اس پراہل
عقل و متفق ہیں ، اور فلاسفہ ومناطقہ نےبھی اوردیگر اہل عقل ودانش نےبھی اس پراپنے
اپنے طریقے پردلائل
پیش کئےہیں:
پہلی دلیل:
یہ ہےکہ اگر خداکی ہستی
ایک سے زائد دو ، تین مانی جائے تہ یہ محال وناممکن ہے ، کیوںکہ یہ بات تو یقینی
ومسلم ہے کہ جس کو خداکہاجائے وہ ہرطرح کے عیب ونقص سے پاک ومنزہ ہونا چاہیے ،
کیونکہ اگر خدا میں عیب ونقص ہو تووہ خدا ہی نہیں ہوسکتا ، اور اس میں اور بندوں
میں کوئ فرق نہ رہے گا ، لہٰذا خدا کا کامل ہونا اور ہر عیب و کمی سے پاک ہونا
لازمی ہے۔جب یہ معلوم ہو گئ تو اب ہم مثلاً سورج یا چاند کی تخلیق کے بارے میں
سوال کرتے ہیں کہ ان کے وجود کی تین صورتوں میں سے کوئ ایک صورت ہو گی : یا تو
دونوں کی پوری پوری طاقت و قدرت سے وہ وجود میں آئے ، یا کسی ایک کامل قدرت سے
وجود میں آئے ، یا دونوں کی تھوڑی تھوڑی قدرت سے وجود میں آئے۔لیکن ان میں سے ہر
صورت باطل ہے:
اول اس لیے کہ دو خداؤں
کی پوری پوری طاقت وکامل قدرت جب استعمال ہوگی تو سورج یا چاند کے ایک وجود میں
دوطاقتوں وقدرتوں کا کارفرما ہونا لازم آئے گا ، اور یہ محال ہے کیوںکہ ایک سانچے
میں دو چیزیں سما نہیں سکتیں ، ایک سیر اناج کے برتن میں دو سیرسما نہیں سکتے ،
اور اگر اس کی کوسس کی جائے کہ دو دو سما جایئں تو وہ ٹوٹ جاتے ہیں ، اسی طرح اگر
دو خداؤں کی کامل طاقت و قدرت نے اپنا اپنا اثرسورج یا چاند کی پیدائش میں دکھایا
تو سورج و چاند کو وجود میں آنے کی گنجائش ہی نہ ھو گی ، بلکہ اگر وجود میں آئیں
بھی تو وہ ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔
دوسری اس لئے کہ جب ایک
ہی کی طاقت سے سورج یا چاند مثلاً وجود میں آیا تو وہ خداؤں کا نہ ہوا ، لہٰذا خدا
تو ایک ہی ہوا ، جبکہ فرض یہ کیا گیا تھا کہ وہ تین ہیں ، معلوم ہوا کہ دو خداؤں
کا تصور باطل ہے۔
تیسری اس لئے کہ جب
دوخداؤں کی تھوڑی تھوڑی قدرت سے یہ سورج یا چاند وجود میں آیا ہے تو سوال یہ ہے کہ
ایسا کیوں ہوا؟کیا اس لئے کہ وہ خدا دونوں کے دونوں اپنے اندر نقص و کمی رکھتے تھے
، اس لئے سورج کے پیدا کرنے میں وہ ایک دوسرے کے محتاج ہوئے؟اگر یہ بات ہے تو پھر
وہ خدا ہی کیا ہوئے جن میں عیب و نقص ہے؟خدا تو وہ ہوتا ہے جس میں کمال ہی کمال ہو
، کوئ عیب و نقص و کمی نہ ہو۔
معلوم ہوا کہ دو خداؤں
کا تصور محض باطل ہے ، لہٰذا خدا صرف ایک ہی ایک ہے ، اس کے ساتھ کہئ اور اس کا
شریک و ساجھی نیں ، وہ"وحدہ لا شریک لہ"ہے۔
دوسری دلیل:
یہ ہے کہ اگر دو خدا فرض
کئے جائیں تو سوال یہ ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے میں اگر ایک خدا ایک بات کو چاہے
اور دوسرا اس کے خلاف دوسری بات کو چاہے تو کیا یہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی
منشا کو پورا کر سکتے ہیں یا نہیں؟اگر یہ کہا جائے کہ وہ دو خدا ایک دوسرے کے خلاف
اپنی اپنی منشا کے مطابق نہیں کر سکتے تو اس سے ان خداؤں کا عاجزوناقص ہونا لازم
آتا ہے کہ خداہو کر بھی اپنی منشا کے مطابق نہیں کر سکے۔اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ
ایک دوسرے کے خلاف اپنی اپنی منشا کے مطابق کر سکتے ہیں تو یہ بھی محض باطل ہے ،
کیوںکہ اس صورت میں وہ مخلوق کیسے وجود میں آئے گی؟جبکہ ایک خدا اس کوپیدا
کرناچاہتا ہے اور دوسرا اس کوپیدا کرنا ہی نہیں چاہتا ، تو وہ مخلوق آخر کس کی
منشا کے مطابق وجود میں آئے؟اور اگر یہ کہا جائے کہ ان دو میں سے ایک کی منشا پوری
ہوگی ایک کی نہ ہوگی تو اس صورت میں ہم کہیں گے کہ جس کی منشا پوری ہوئ وہی خدا ہے
اور جس کی پوری نہیں ہوئ وہ خدا ہی نہیں ، کیونکہ وہ عاجز ہے۔اس سے بھی معلوم ہوا
کہ دو خداؤں کا فرض کرنا ایک امر محال کو مستلزم ہے۔
تیسری دلیل:
یہ کہ اگر دو خدا ہوں تو
ان میں ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے لئے آپس میں رسہ کشی ہوتی ، جس کے نتیجے میں
عالم درہم برہم ہوجاتا ، کیونکہ ایک ہی مرتبے کے دو انسان بھی کسی ایک ادارے اور
نظام کے متولی نہیں ہوسکتے ، ورنہ ان میں رسہ کشی و تنازع ایک لازمی بات ہے، جس کی
وجہ سے نظام میں اختلال و خرابی بھی لازمی ہے ، اسی طرح دو خداؤں کو فرض کیا جائے
تو یہی صورت حال لازم آتی ، حالانکہ نظام عالم کی ہر شئ اپنی جگہ بہت مستحکم ہے جس
کا ہم ہر وقت نظارہ کرتے ہیں ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو خدا کا ہونا باطل ہے ،
ورنہ یہ نظام کیونکر باقی و مستحکم رہتا۔